'کیبل گیٹ' نے فارن سروس کو انتہائی مشکل موڑ پر لا کھڑا کیا

اپ ڈیٹ 08 اپريل 2022
سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ رپورٹنگ افسران بہت محتاط اور عام طور پر زیادہ شائستہ ہو جائیں گے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ رپورٹنگ افسران بہت محتاط اور عام طور پر زیادہ شائستہ ہو جائیں گے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے خلاف اپنے آپ کو بچانے کے لیے سفارتی کیبل استعمال کرنے کا اقدام کارگر ثابت نہیں ہوا بلکہ اس نے فارن سروس کے لیے خطرناک نتائج چھوڑے ہیں جو آنے والے طویل عرصے تک محسوس کیے جائیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عمران خان نے 27 مارچ کو ایک عوامی ریلی میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت گرانے کا اقدام غیر ملکی سازش کا نتیجہ ہے۔

بعد میں انہوں نے اس ملک کا نام امریکا لیا اور معلوم ہوا کہ ان کا الزام سفیر اسد مجید کی جانب سے موصول ہونے والی ایک کیبل پر مبنی تھا جس میں انہوں نے جنوبی اور وسطی ایشیا کے امور کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو سے ملاقات کی اطلاع دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: دھمکی آمیز خط: سفارتی ذریعے سے مراسلہ دے دیا گیا، دفتر خارجہ

اسد مجید نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ڈونلڈ لو نے متنبہ کیا ہے کہ عمران خان، جنہیں عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا ہے، کا عہدے پر برقرار رہنا دوطرفہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔

کہا گیا کہ امریکا، عمراں خان کی 'آزاد خارجہ پالیسی' اور ماسکو کے دورے پر ان سے ناراض ہے جبکہ حکومت نے اسے خطرے سے تعبیر کیا۔

اس کے ساتھ عوامی سطح پر جانے کے حکومتی فیصلے نے دفتر خارجہ کو تنازعات کے بیچ میں ڈال دیا لیکن وہاں خدمات انجام دینے والے سفارت کار اس سے خوش نہیں ہیں۔

دفتر خارجہ کی راہداریاں فی الحال خاموش نظر آتی ہیں لیکن کچھ عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان سے بات کی۔

مزید پڑھیں: ایک طاقتور ملک نے ناراض ہوکر ہمیں کہا کہ آپ روس کیوں چلے گئے؟ وزیراعظم

بیرون ملک تعینات ایک سفیر نے کہا کہ 'کیبل گیٹ نے کام کو سنجیدگی سے متاثر کیا ہے، لیکن اس کا حجم بتانا مشکل ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے شاید اس سے کچھ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے محفوظ اور خفیہ مواصلات کے اصول کو توڑا، جو کہ سفارت کاری کا مرکز ہے۔

اس سے ان کے کام پر کیا اثر پڑے گا؟

بیرون ملک مشنز سے بھیجی گئی کیبلز میں ملک کی دلچسپی کی پیش رفت کے بارے میں اہم معلومات اور میزبان ممالک کے رہنماؤں کی سوچ کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے۔

سفارتی رپورٹنگ میں خارجہ پالیسی کے پیچیدہ مسائل کا تجزیہ شامل ہے، کیبلز بعض اوقات مشکل حالات میں قومی مفاد کو آگے بڑھانے کے لیے آپشن بھی تجویز کر سکتی ہیں۔

ایک اور سفیر نے کہا کہ 'ہم میں سے کچھ مخالف ماحول میں کام کرتے ہیں، اب ہم اس کے عوامی ہونے کے خوف سے اپنی رپورٹنگ میں اپنے ذرائع کا نام نہیں لیں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے 'دھمکی دینے والے' امریکی عہدیدار کا نام بتادیا

لہٰذا سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ رپورٹنگ افسران بہت محتاط اور عام طور پر زیادہ شائستہ ہوجائیں گے۔

کیبلز کی گردش بہت محدود ہوتی ہے اور بہت کم افراد ان تک رسائی رکھتے ہیں، اس سے سفرا کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے کہ میزبان ملک میں کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں اپنی حکومت کے ساتھ غیر واضح سچائی کا اشتراک کرنا محفوظ ہے۔

اب وہ فکر مند ہیں اور کم از کم کسی متنازع چیز کی اطلاع دینے کے بارے میں دو بار سوچیں گے۔

یہ دفتر خارجہ میں فیصلہ سازی کو متاثر کرے گا، جس کے لیے دوٹوک اور واضح رپورٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس معاملے کا ایک اور نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ غیر ملکی حکومتیں پاکستانی سفارت کاروں پر اعتماد کرنے میں محتاط ہو سکتی ہیں، اس سے سفارت کاروں کی رسائی کی تاثیر کم ہو جائے گی اور معلومات کا حصول مشکل ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں: ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی، باہر سے حکومت بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے، وزیر اعظم

بیرون ملک تعینات ایک سفارت کار نے کہا کہ اس 'کیبل گیٹ' کے نتائج اس سے آگے نکلیں گے جس پر ابھی بات کی جا رہی ہے کیونکہ یہ حساس تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور کھلے تبادلے کو مزید مشکل بنا سکتا ہے۔

ان کی رائے یہ تھی کہ پاکستانی سفارتکاروں سے ملاقاتیں کرنے والے غیر ملکی حکام نہ صرف اس مخصوص ملک کے معاملات میں ایک ونڈو فراہم کرتے ہیں بلکہ ان کی بصیرت اکثر بین الاقوامی سیاست میں جذبات کی نشاندہی کرتی ہے۔

سفیر کا مزید کہنا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ شاید وہ عہدیدار ہمارے ساتھ کھلے خیالات کا اشتراک کرنے کو تیار نہ ہوں، اگر ایسا ہوتا ہے تو خاص طور پر بحران کے وقت ان ذرائع کی بہت کمی محسوس کی جائے گی۔

فارن سروس کے ایک ریٹائرڈ عہدیدار نے کہا کہ یہ پاکستان کی امتیازی خصوصیت تھی کہ 'ہم نے خارجہ پالیسی کے تنازعات کو ملکی سیاست میں نہیں کھینچا تھا'، ساتھ ہی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لیکن اس واقعے کے بعد اب ایسا نہیں رہا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں