آرٹیکل 63 اے سے متعلق عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ وزیراعلیٰ کے انتخاب پر لاگو نہیں ہوتا، حمزہ شہباز

اپ ڈیٹ 30 مئ 2022
حمزہ شہباز نے اپنا مؤقف برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے انتخاب کے خلاف درخواست آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت قابل سماعت نہیں ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
حمزہ شہباز نے اپنا مؤقف برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے انتخاب کے خلاف درخواست آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت قابل سماعت نہیں ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے ان کے وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کے خلاف درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں جواب جمع کروا دیا جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کی گئی آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح وزیر اعلیٰ کے انتخاب پر لاگو نہیں ہوتی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے منحرف اراکین کو نااہل قرار دیا تھا۔

انہوں نے عدالت سے مزید استدعا کی کہ منیر احمد کی اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ان پر جرمانہ عائد کیا جائے۔

منیر احمد نے لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی تھی کہ حمزہ شہباز کے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب انتخاب کے خلاف ان کی درخواست کو پی ٹی آئی سمیت دیگر فریقین کی درخواستوں کے ساتھ کلب کیا جائے۔

حمزہ شہباز 16 اپریل کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، اس دوران صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ہنگامہ آرائی اور مخالفین کی جانب سے شدید احتجاج کے مناظر دیکھے گئے تھے۔

حمزہ شہباز 197 ووٹوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، یہ تعداد درکار 186 ووٹوں سے زیادہ ہے، حمزہ شہباز نے 25 منحرف اراکین ووٹ بھی حاصل کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ سے برطرفی کیلئے پی ٹی آئی کا عدالت سے رجوع کا فیصلہ

انتخابات کی شفافیت پر اس وقت سوالات کھڑے ہوئے جب سپریم کورٹ نے 17 مئی کو فیصلہ دیا کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں منحرف قانون سازوں کے ووٹ نہیں گنے جائیں گے، جبکہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 63 اے کے تحت پنجاب اسمبلی سے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کردیا ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے 19 مئی کو لاہور ہائی کورٹ میں حمزہ شہباز کے انتخاب کو چیلنج کیا گیا تھا جس کے بعد عدالت نے اس معاملے پر وزیر اعلیٰ سے جواب طلب کیا تھا۔

حمزہ کا 16 صفحات پر مشتمل جواب ان کے وکیل خالد اسحٰق نے جمع کرایا، یہ جواب 25 مئی کو لاہور ہائی کورٹ میں سماعت پر حمزہ شہباز اور پنجاب حکومت پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے کے بعد عدالت میں جمع کرایا گیا ہے۔

جواب میں حمزہ شہباز نے وضاحت دی کہ بطور وزیر اعلیٰ، حمزہ شہباز کا انتخاب 16 اپریل کو ہوا تھا جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح 17 مئی کو جاری کی گئی اس لیے الیکشن، سپریم کورٹ کے حکم کے تحت نہیں ہو سکتے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ جب تک صورت بیان نہ کی جائے تک اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے قانون کی کسی بھی تشریح یا اعلان کا اطلاق سابقہ فیصلوں پر نہیں ہونا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ کا انتخاب کالعدم قرار دینے کی درخواست پر حمزہ شہباز کو نوٹس جاری

علاوہ ازیں انہوں نے نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کا حکم قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق تھا اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے مذکورہ انتخابات متاثر ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب آئین کی سختی سے تکمیل اور معزز عدالت کے جاری کردہ حکم کے مطابق ہوا تھا، اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نتائج بدنیتی پر مبنی ہیں‘۔

حمزہ شہباز نے دہرایا کہ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ سابق وزیر اعلیٰ کے استعفے کے بعد ’وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے آئینی تقاضے‘ پر عمل درآمد کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے ’جواب کنندہ کی استدعا قبول کرتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ الیکشن 16 اپریل 2022 کو ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے کروائے جائیں‘۔

حمزہ شہباز نے اپنا مؤقف برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے انتخاب کے خلاف درخواست آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت قابل سماعت نہیں ہے۔

انہوں نے یہ استدلال بھی کیا کہ آئین کے آرٹیکل 127 کے ساتھ پڑھے جانے والے آرٹیکل 69 کے تحت فراہم کردہ برطرفی کے طریقہ کار کی روشنی میں درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: حلف برداری سے متعلق حمزہ شہباز کی درخواست اعتراض ختم ہونے پر سماعت کیلئے مقرر

جواب میں حمزہ شہباز نے مزید کہا کہ اس طرح کے کیسز لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے کیونکہ مذکورہ آرٹیکلز کے تحت فراہم کردہ برطرفی کا قانون پارٹی کو ایوان میں ہونے والے انتخابات کو چیلنج کرنے سے روکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کو عہدے سے سبکدوش ہونے والے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے منشا کے مطابق حاصل ’اختیار‘ کے ’غیر قانونی اور غیر آئینی‘ مفروضے کی بنیاد پر چیلنج کیا گیا ہے۔

تاہم، انہوں نے دلیل دی کہ عدالت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ گورنر کے پاس ایسا اعلان کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

درخواست کو ’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت عدالتی نظرثانی کے غیر معمولی آئینی دائرہ کار کو استعمال کرنے کے لیے اسے قانونی بنیاد نہیں بنایا۔

پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل

دوران سماعت درخواست سے متعلق دلائل پیش کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ بننے کے لیے قانون کے مطابق 186 ووٹ چاہیے، اگر کسی کے ووٹ 186 سے کم ہوں تو وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر براجمان نہیں ہوسکتا۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ کا انتخاب کالعدم قرار دینے کی درخواست، جواب داخل نہ کرنے پر حمزہ شہباز کو ایک لاکھ روپے جرمانہ

ان کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز کے 197 میں سے 25 ووٹ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے ہیں، لہٰذا حمزہ شہباز کے پاس اب عددی اکثریت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال یہ ہے کہ یہ 25 ووٹ شمار ہوں گے یا ان کی گنتی نہیں کی جائے گی، ہمارا کیس یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی تشریح کے بعد منحرف اراکین کے ووٹ نکال دیں تو حمزہ کے پاس اکثریت نہیں ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ماضی میں کیے گئے فیصلے پر ہوگا یا نہیں، اگر ماضی سے اطلاق ہوگا تو کیا ماضی کے سارے فیصلے ریورس ہو جائیں گے؟

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے منحرف اراکین کو ڈی نوٹیفائی کیا ہے، اس کا مطلب ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سن رہے ہیں کیونکہ ڈی نوٹی فائی تو الیکشن کمیشن نے کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حلف کے خلاف ’پی ٹی آئی‘ کی درخواستوں پر حمزہ شہباز کو نوٹس جاری

پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ لاقانونیت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، مثال دیتا ہوں کہ اگر کوئی چور چوری مان لے لیکن وہ چوری شدہ مال واپس نہ کرے تو کیا ہوگا۔

انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ میں صرف مثال دے رہا ہوں میں کسی کو چور نہیں کہہ رہا ہوں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا شارٹ آرڈر یہ ہے کہ منحرف اراکین کے ووٹ کو شمار نہیں کرنا ہے، ووٹنگ زیر التوا ہو تو شمار نہیں ہوگا۔

لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے وکیل کو آئندہ سماعت پر دلائل جاری رکھنے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں