امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات کی تعیمرِ نو کیلئے تیار ہے، ڈونلڈ بلوم

ڈونلڈ بلوم گزشتہ ماہ کے آخر میں پاکستان پہنچے تھے—تصویر:اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ
ڈونلڈ بلوم گزشتہ ماہ کے آخر میں پاکستان پہنچے تھے—تصویر:اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ

پاکستان میں امریکا کے نئے سفیر ڈونلڈ بلوم نے ملک کی حکومت، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کے تنازع سے آگے بڑھنے کے واشنگٹن کے ارادے کا اشارہ دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ بلوم گزشتہ ماہ کے آخر میں پاکستان پہنچے تھے،انہوں نے منفرد چیلنجوں اور مواقع کے وقت امریکی مشن کا چارج سنبھالا ہے۔

اگرچہ پاکستانی معاشرے میں امریکا مخالف جذبات بہت گہرے ہیں لیکن یہ جذبات اس وقت بھڑک اٹھے جب سابق وزیراعظم عمران خان نے الزام لگایا کہ انہیں حکومت کی تبدیلی کے لیے امریکی سازش کے ذریعے بے دخل کیا گیا اور 'بیرونی طاقتوں کے غلاموں' سے 'آزادی' کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک عوامی مہم چلائی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سینیٹر کا پاکستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی ضرورت پر زور

چنانچہ یہ بڑھتے ہوئے امریکا مخالف جذبات واشنگٹن کے لیے پاکستان میں اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف کو پورا کرنے میں سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

البتہ پھر نئے مواقع بھی ابھرے ہیں، ڈونلڈ بلوم تقریباً چار سال کے وقفے کے بعد اسلام آباد میں پہلے کل وقتی امریکی سفیر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری اس وقت سنبھالی جب گزشتہ سال افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد دو طرفہ تعلقات میں بظاہر یہ اب کوئی اہم مسئلہ نہیں رہا۔

امریکی سفیر نے ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کے 'حکومت کی تبدیلی' کے الزام کو مسترد کرنے کا اعادہ کیا اور کہا کہ واشنگٹن اس بارے میں ’بہت واضح‘ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم میرے خیال میں سب سے بہتر چیز جو ہم آگے بڑھنے کے لیے کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی معاشرے کی تمام سطحوں پر رابطے رکھیں، جیسا کہ ہمارے گزشتہ 75 برسوں سے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ رابطے صرف حکومت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ سیاسی رہنماؤں، تاجر برادری، سول سوسائٹی اور نوجوانوں تک پھیلیں گے۔

مزید پڑھیں: 'امریکا سے خراب تعلقات پاکستان کیلئے مختلف محاذوں پر مشکلات پیدا کر سکتے ہیں'

ان کا کہنا تھا کہ ان دو طرفہ رابطوں میں وہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اسے ’سنیں اور سمجھیں گے‘ اور واشنگٹن تک ’اس سمجھ بوجھ‘ کو پہنچائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ یہاں حاضرین کے ساتھ امریکی ’نظریات اور پوزیشن واضح اور شفاف طریقے سے شیئر کریں گے‘۔

امریکی تعلقات پر ملکی سیاست میں انتشار پسندی سے ہٹ کر، اسلام آباد میں نئی حکومت ہمیشہ دوطرفہ تعلقات کو بحال کرنے کے لیے تیار رہی ہے۔

اس کا پہلا موقع امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو اقوام متحدہ میں فوڈ سیکیورٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے دیے گئے دعوت نامے کی شکل میں سامنے آیا۔

بلاول بھٹو زرداری اور انٹونی بلنکن نے 18 مئی کو نیویارک میں کانفرنس کے موقع پر بھی ملاقات کی، جو کئی ماہ میں دونوں فریقین کے درمیان پہلی اعلیٰ ترین سطح کا براہِ راست رابطہ تھا۔

ڈونلڈ بلوم نے انکشاف کیا کہ دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات میں طے شدہ ایجنڈے کی بنیاد پر ’متعدد فالو اپس‘ کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کے پاس پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، ٹام ویسٹ

انہوں نے کہا کہ ’ اس میں سے کچھ میں یہاں کروں گا اور مجھے امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں ہم پاکستان میں مختلف قسم کے امریکی وزیٹرز کو دیکھیں گے تاکہ اسے مزید آگے بڑھایا جا سکے‘۔

طویل عرصے سے معطل دوطرفہ مذاکرات کی بحالی کی جانب بظاہر ایک قدم کے طور پر دونوں فریقین صحت کے مسائل پر اپنے تعاون کو مزید گہرا کرنے کے لیے واشنگٹن میں امریکا پاکستان صحت مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔

امریکی سفیر نے عالمی وبا کووڈ 19 کے خلاف دونوں ممالک کے درمیان ’شراکت داری‘ کو صحت کے حوالے سے تعاون کی ایک اچھی مثال کے طور پر یاد کیا۔

خیال رہے کہ امریکا نے کووِڈ ویکسین کی 6 کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ خوراکیں، 6 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی مالی مدد اور 90 لاکھ ڈالر کی اضافی امداد پاکستان کی وبائی بیماری کے خلاف جنگ میں مدد کے لیے دی تھی۔

ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ ہم اس کام کو نہ صرف امداد میں بلکہ صحت کے شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر کی بڑھتی ہوئی شراکت کے ذریعے آگے بڑھا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا، پاکستان سے واضح طور پر فاصلہ اختیار کرچکا ہے، ایڈمرل میولن

وزرائے خارجہ کی ملاقات کے دوران سرمایہ کاری اور تجارت پر زور دینے کی طرح ڈونلڈ بلوم نے بھی کہا کہ وہ ’ہماری دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو مزید فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں‘۔

انہوں نے صحت آب و ہوا اور تعلیم کی دیگر شعبوں کے طور پر نشاندہی کی جہاں تعاون کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

تاہم ساتھ ہی ان کے ساتھ بات چیت سے یہ بات بھی واضح تھا کہ دہشت گردی کے خلاف تعاون آنے والے کچھ عرصے کے لیے اس تعلقات کی ایک خاص خصوصیت رہے گا۔

امریکی سفیر نے کہا کہ امریکا ’انسداد دہشت گردی پر پاکستان کے ساتھ مضبوط شراکت داری‘ کا خواہاں ہے اور اسلام آباد سے تمام عسکریت پسند اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف ’پائیدار‘ اور بلا امتیاز کارروائی کی توقع رکھتا ہے۔

ڈونلڈ بلوم سے خصوصی طور پر یہ وضاحت کرنے کو کہا گیا کہ کیا پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے امریکی کوششوں میں افغانستان کے قریب ڈرون اڈے تک رسائی پر بات چیت بھی شامل ہے لیکن انہوں نے اس کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، امریکا کے ساتھ دشمنی کا متحمل نہیں ہو سکتا، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان میں یا کہیں بھی دہشت گردی کے خطرات کے دوبارہ نمودار ہونے کو روکنے کے لیے پرعزم ہے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک عالمی کوشش ہے، ہم دہشت گردی سے نمٹنے کے بہترین طریقے کے لیے دنیا بھر کے شراکت داروں، اتحادیوں اور کلیدی ریاستوں سے رابطے جاری رکھیں گے۔

یہ بات انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہی جس میں انہوں نے خطے میں صلاحیتوں کو بڑھانے اور اثاثوں کی تعیناتی کے بارے میں بات کی تھی تاکہ دہشت گردوں کے دوبارہ ابھرنے کو روکا جا سکے۔

امریکی سفیر نے کہا کہ افغانستان پر طالبان پر افغان سرزمین دہشت گردی کے اڈے کے طور پر استعمال ہونے سے روکنے، انسداد دہشت گردی، جامع حکومت اور خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق وعدوں کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے امریکا پاکستان کے ساتھ کام کرے گا۔

ڈونلڈ بلوم نے دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے اور انسداد منی لانڈرنگ اقدامات کے لیے جاری پاکستانی کوششوں کا خیر مقدم کیا۔

ان کے یہ ریمارکس فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے 14 جون سے شروع ہونے والے پلانری اجلاس سے پہلے سامنے آئے ہیں رقوم کی غیر قانونی منتقلی پر نظر رکھنے والا ادارہ پاکستان کی پیش رفت کا جائزہ لے گا جو جون 2018 سے گرے لسٹ میں موجود ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں