بیلا حدید کو مسلم ثقافت اور مسلمانوں سے دور زندگی گزارنے پر پچھتاوا

اپ ڈیٹ 20 اگست 2022
نسلی تعصب کا نشانہ بنی، دہشت گرد کہا گیا، ماڈل—فوٹو: انسٹاگرام
نسلی تعصب کا نشانہ بنی، دہشت گرد کہا گیا، ماڈل—فوٹو: انسٹاگرام

متعدد ملٹی نیشنل برانڈز کی تشہیری مہم کا حصہ رہنے والی 25 سالہ فلسطینی نژاد امریکی سپر ماڈل بیلا حدید نے مسلم ثقافت اور مسلمانوں کے درمیان زندگی گزارنے کا موقع نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

بیلا حدید نے حال ہی میں فیشن میگزین ’جی کیو‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کیریئر، فلسطین سے متعلق کھل کر بات کرنے سمیت مسلم اور عرب نسل سے تعلق ہونے کی وجہ سے بچپن میں پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کیا۔

طویل انٹرویو میں بیلا حدید نے بتایا کہ انہیں فلسطین کے مسئلے پر بولنے کی قیمت ادا کرنی پڑی جب کہ انہیں بچپن میں امریکا میں نسلی تعصب کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

ماڈل کے مطابق عرب اور مسلمان نسل سے تعلق ہونے کی وجہ سے اسکول میں انہیں ’دہشت گرد‘ بھی کہا جاتا تھا۔

انہوں نے انٹرویو میں اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں حقیقی مسلمان افراد کے ساتھ زندگی گزارنے اور وہیں پلنے بڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔

انہوں نے مسلم ثقافت سے دوری کو زندگی کی سب سے بڑی محرومی بھی قرار دیا اور اس بات کا اعراف کیا کہ انہیں اس بات پر دکھ ہے کہ وہ مسلم معاشرے میں زندگی نہ گزار سکیں۔

انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بھی کھل کر بات کی اور بتایا کہ انہیں اپنے آباؤ و اجداد کے ملک فلسطین کی حمایت کرنی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔

علاوہ ازیں انہوں نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں فلسطین کی حمایت کرنے پر اپنے ایسے قریبی دوست بھی چھوڑ کر چلے گئے، جو انہیں ہر ہفتے اپنے گھر لے جاکر ان کی دعوت کیا کرتے تھے۔

بیلا حدید کے مطابق فلسطین کی حمایت میں بولنے پر انہیں کئی ملٹی نیشنل برانڈز نے کام دینا بند کردیا اور ان کے دوستوں نے بھی ان کا بائیکاٹ کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اگر وہ کم عمری میں فلسطین کی حمایت میں بولتیں تو ان کی باتوں کا اتنا اثر نہیں ہوتا۔

ان کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے میں ان کی جانب سے فلسطین سے متعلق باتیں کرنا کا اثر ہو رہا ہے اور ان کی باتوں کو پذیرائی بھی مل رہی ہے۔

پوڈ کاسٹ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے گزشتہ برس نیویارک ٹائمز کی جانب سے اپنے اور بہن جی جی حدید سمیت دعا لیپا کے خلاف شائع کیے گئے اشتہار پر بھی بات کی اور اسے خطرناک قرار دیا۔

ماڈل کا کہنا تھا کہ نیویارک ٹائمز نے کٹر یہودیوں کی تنظیم کی جانب سے پورے صفحے پر ہماری تصاویر کے ساتھ بڑا اشتہار شائع کرکے ہمیں دہشت گرد، تنگ نظر اور یہود مخالف قرار دیا جو کہ خطرناک بات تھی۔

انہوں نے اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کیا کہ جب بھی وہ ٹوئٹر پر فلسطین کے حق میں بات کرتی ہیں تو اسرائیلی ریاست کے آفیشل ٹوئٹر سے ان کی مخالفت کی جاتی ہے، ان کے خلاف بات کی جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں