آزادی مارچ میں پی ٹی آئی کےخلاف کارروائی میں ملوث افسران کوسزا دینے کیلئے کمیٹی تشکیل

اپ ڈیٹ 26 اگست 2022
لاہور کے ڈی آئی جی سیکیورٹی محبوب رشید کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا — فائل فوٹو: ڈان
لاہور کے ڈی آئی جی سیکیورٹی محبوب رشید کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا — فائل فوٹو: ڈان

لاہور پولیس کے اعلیٰ عہدیدار نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنوں کو مبینہ طور پر مار پیٹ کرنے کے الزام میں تقریباً دو درجن سابق اور حاضر سروس اسٹیشن ہاؤس افسران (ایس ایچ اوز) سے پوچھ گچھ کے لیے اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ کمیٹی پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے کہنے پر تشکیل دی گئی تھی، پی ٹی آئی قیادت نے واقعے کی کارروائی نہ کرنے کی صورت میں پولیس اور پنجاب حکومت کو دھمکانے کی کوشش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ کے شرکا سے ’بدسلوکی کے الزام‘ میں 25 ایس ایچ اوز معطل

عہدیدار کا کہنا تھا کہ لاہور کے ڈی آئی جی سیکیورٹی محبوب رشید کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا جس میں ایس ایس پیز ڈسپلن اور ایڈمن سمیت دیگر افسران شامل تھے۔

ابتدائی طور پر لاہور انویسٹی گیشن کے ایس ایس پی عمران کشور کو کمیٹی کے سربراہ کا کام سونپا گیا تھا تاہم انہوں نے معاملے کی حساسیت کے باعث ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا تھا۔

عہدیدار نے کہا کہ کمیٹی سابق ایس ایچ اوز اور کچھ ڈی ایس پیز کے کردار کا تعین کرنے کے لیے انکوائری کرے گی جن کی شناخت پنجاب میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے تشکیل دی گئی انسدادِ تشدد کمیٹی نے کی تھی، پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شفقت محمود کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی میں پارٹی کے کئی دیگر سیاسی رہنما، وکلا اور کارکنان شامل تھے۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ کے بعد دائر مقدمات ختم کروانے کیلئے پی ٹی آئی کی کمیٹی تشکیل

اس سے قبل پنجاب حکومت نے ان الزمات پر اُس وقت کے لاہور کیپیٹل سٹی پولیس افسر بلال صدیق کمیانہ اور ڈی آئی جی آپریشنز کو ہٹا دیا تھا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ سینئر پولیس افسران پر مشتمل اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی تشکیل کی وجہ سے ان پولیس آفیشلز کو منفی پیغام گیا ہے جنہیں آزادی مارچ کے سبب انکوائری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انکوائری میں قصوروار پائے جانے والے پولیس اہلکاروں کو سروس سے برخاستگی، فوجداری مقدمات کے اندراج یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی کمیٹی نے لاہور میں آزادی مارچ سے پہلے اور اس کے دوران پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف درج کیے گئے مجرمانہ مقدمات کا مکمل ریکارڈ فراہم کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ کے شرکا پر پولیس تشدد قابل مذمت، ناقابل برداشت ہے، عمران خان

دوسری جانب ڈی آئی جی پولیس سے حالیہ ملاقات کے دوران سابق ایس ایچ اوز نے کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر کچھ نہیں کیا بلکہ انہوں نے وہی کیا جو اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے احکامات دیے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق ایس ایچ او نے میٹنگ میں موجود ڈی آئی جی اور دیگر افسران کو بتایا کہ وہ ان ایس ایچ اوز میں شامل ہیں جنہیں سرکاری واٹس ایپ نمبر پر حکم ملا کہ آزادی مارچ سے قبل لاہور میں دفعہ 144 نافذ کی جائے، انہیں ہدایت کی گئی کہ 1973 کے کریمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 144 کے تحت کسی علاقے میں چار یا اس سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی کا حکم جاری کیا جائے۔

سابق ایس ایچ او نے کہا کہ قانون کے مطابق ’غیر قانونی اسمبلی‘ کے ہر رکن کے خلاف فساد میں ملوث ہونے پر مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے، اُس وقت کے ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز کو سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے، خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور انہوں نے اعلیٰ عہدیدار کے احکامات کی مکمل تعمیل کی ہے۔

مزید پڑھیں: لانگ مارچ کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کو ملک بھر میں مقدمات کا سامنا

اس موقع پر موجود دیگر سابق ایس ایچ اوز نے بھی اپنے ساتھی کے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ نچلے درجے کے پولیس افسران میں صرف تھانوں کے سربراہوں کو جوابدہ ٹھہرانے کی وجہ سے مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ پولیس کی اعلیٰ قیادت نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی پولیس اور دیگر فیصلہ ساز قیادت کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں