آزادی مارچ کے شرکا پر پولیس تشدد قابل مذمت، ناقابل برداشت ہے، عمران خان

اپ ڈیٹ 29 مئ 2022
ٹوئٹر پر جاری بیان میں عمران خان نے مارچ کے شرکا پر پولیس تشدد کو ناقابل برداشت قرار دیا —فائل فوٹو: شکیل قرار
ٹوئٹر پر جاری بیان میں عمران خان نے مارچ کے شرکا پر پولیس تشدد کو ناقابل برداشت قرار دیا —فائل فوٹو: شکیل قرار

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے 25 مئی کو ہونے والے ’حقیقی آزادی مارچ‘ کے شرکا پر مبینہ پولیس تشدد کی وڈیو جاری کرتے ہوئے اسے ’قابل مذمت اور ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔

حقیقی آزادی کے لیے عمران خان کے مارچ سے قبل حکام نے اجتماعات کو روکنے کے لیے دفعہ 144 کا اطلاق کیا تھا اور ان کا راستہ روکنے کے لیے اہم شاہراہوں پر شپنگ کنٹینرز رکھے گئے تھے۔

حکومت کے ایسے اقدامات سے بے خوف ہوکر آزادی مارچ کے شرکا نے اسلام آباد پہنچنے کے لیے شاہراہوں پر رکھے کنٹینرز کو ہٹانے کی کوشش کی تو پولیس نے ان کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال اور لاٹھی چارج بھی کیا تھا۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: عمران خان کا نئے انتخابات کی تاریخ کے اعلان تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں قیام کا عزم

سابق وزیر اعظم نے اتوار کو کہا کہ آئین اور سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس مجرمانہ امپورٹڈ حکومت نے ہمارے پرامن آزادی مارچ کے مظاہرین کو پولیس کے ذریعے بربریت کا نشانہ بنایا جو قابل مذمت اور ناقابل قبول اقدام ہے۔

عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ سے قبل رات کو پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان کے گھروں پر گرفتاری کے لیے مسلسل چھاپے مارے تھے، اس کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ہمارے مارچ سے قبل رات کو سندھ اور پنجاب پولیس نے پی ٹی آئی کارکنان کے گھروں کا تقدس پامال کیا اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا۔

پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارنے کے ایسے اقدام میں ایک پولیس اہلکار بھی جاں بحق ہوا تھا جس کا الزام پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت ایک دوسرے پر لگا رہے تھے۔

بعد ازاں، تحریک انصاف کا مارچ ڈی چوک پر دھرنا دیے بغیر 26 مارچ کو ختم کردیا گیا لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ جب تک انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جاتا یہ مارچ پھر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو روکنے کا اعلان

ڈی چوک پر کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ حکومت 6 دنوں میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے ورنہ وہ 6 دنوں بعد پھر دھرنا دیں گے۔

اسی دن وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کی ڈکٹیشن نہیں چلے گی، انتخابات کب ہونے ہیں اس کا فیصلہ ایوان کرے گا۔

لانگ مارچ کے اچانک ختم ہونے کے بعد ان حالات کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں جن کی وجہ سے مارچ ختم کیا گیا۔

تاہم عمران خان نے ایسی تجاویز پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہوئی‘، وہ ’خونریزی‘ کو روکنے کے لیے پیچھے ہٹ گئے ہیں کیونکہ پولیس کی جوابی کارروائی کے بعد ان کے حامی بالکل تیار تھے اور ان میں غصے کا احساس ابھر رہا تھا۔

گزشتہ روز عمران خان نے کہا کہ پرامن احتجاج کے حق لینے کے لیے وہ پیر کو عدالت سے رجوع کریں گے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام آباد کی طرف مارچ کے دوران ان کے پارٹی کارکنان پر طاقت کا استعمال کرنے والے ذمہ داران کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کریں گے۔

پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے کو تمام فورمز بشمول عدالت عظمٰی، ہائی کورٹ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے پاس اٹھائیں گے۔

طاقت کے استعمال کے ’تباہ کن نتائج‘

سابق وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بھی ٹوئٹر پر اپنے بیان میں مقبول تحریکوں کو دبانے کے لیے طاقت کے استعمال کے ’تباہ کن نتائج‘ پر بات کی۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا 25 مئی کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

انہوں نے لکھا کہ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ مقبول تحریکوں کو طاقت اور دھمکیوں کے ذریعے ختم کرنے کے تباہ کن نتائج نکلے ہیں۔

اسد عمر نے لکھا کہ وہ لوگ سوچتے ہیں کہ وہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے مقبول عوامی تحریک کو کچل سکتے ہیں، تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ عوام کے غصے کو کم نہ سمجھے، کیونکہ وہ توقع سے زیادہ غصے میں ہیں۔

انہوں نے مزید وضاحت کیے بغیر تسلیم کیا کہ کچھ ’غلطیاں‘ تھیں جو پی ٹی آئی نے کیں جس سے صورتحال اس مرحلے تک پہنچ گئی۔

انہوں نے کہا کہ کیا زرداری اور شریف لوگ پاکستان کو اگلے 40 سال تک چلائیں گے اور کیا یہ دہائیاں بھی گزشتہ سالوں کی طرح ضائع ہوجائیں گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں