فوجی افسر قتل کیس: داعش سے متاثر ’ 2 عسکریت پسندوں’ کی عمر قید کی سزا کالعدم

اپ ڈیٹ 30 اگست 2022
عدالت عالیہ نے کہا کہ مقتول کی بیوہ کو بطور عینی شاہد  شامل ہی نہیں کیا گیا—فائل فوٹو: وکیمیڈیا کامنز
عدالت عالیہ نے کہا کہ مقتول کی بیوہ کو بطور عینی شاہد شامل ہی نہیں کیا گیا—فائل فوٹو: وکیمیڈیا کامنز

سندھ ہائی کورٹ نے پاک بحریہ کے افسر کے قتل کے مقدمے میں 2 مبینہ اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) سے متاثر عسکریت پسندوں کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سنائی گئی عمر قید کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ واحد عینی شاہد محفوظ اور قابل اعتماد طریقے سے ملزمان کی شناخت نہیں کرسکتا جب کہ شناختی پریڈ بھی قانون کے مطابق نہیں کی گئی۔

عدالت عالیہ کا کہنا ہے کہ مقتول کی بیوہ اس مقدمے کی سب سے اہم عینی شاہد تھی لیکن استغاثہ نے بغیر کسی وضاحت کے اسے بطور گواہ شامل ہی نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ صفورا اور سبین محمود قتل کے مجرمان کی سزائے موت برقرار

انسداد دہشت گردی عدالت نے سعد عزیز المعروف ٹن ٹن اور طاہر حسین منہاس عرف سائیں کو دسمبر 2020 میں کارساز کے قریب ستمبر 2013 میں مسلح حملے میں پاک بحریہ کے کیپٹن ندیم احمد کو قتل کرنے اور ان کی غیر ملکی اہلیہ کو زخمی کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

ان ملزمان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ آئی ایس کے مقامی کارندےہیں

مجرموں نے ٹرائل کورٹ کے سزا کے حکم کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔

دونوں فریقین کو سننے ریکارڈ اور کارروائی کا جائزہ لینے کے بعد جسٹس محمد کریم خان آغا خان کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اپیلیں منظور کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

مزید پڑھیں: سانحہ صفورا کے ملزمان نے سزائے موت چیلنج کردی

بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سرکاری وکیل اپنے کیس کو معقول حد تک شک سے بالاتر ثابت نہیں کر سکا، کیس کا انحصار تقریباً صرف ایک عینی شاہد کی شہادت پر کیا گیا جب کہ واقعہ کے وقت اس ایک عینی شاہد کی موجودگی بھی بہت زیادہ مشکوک ہے اور اس کی گواہی کی تصدیق کے لیے شاید ہی کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہو۔

سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عینی شاہدین کے شواہد اور استغاثہ کے بیانات میں تضاد ہے، عینی شاہد نے بیان دیا تھا کہ واقعہ ٹریفک سگنل پر پیش آیا، 2 حملہ آوروں نے جرم کیا اور استغاثہ کے مطابق حملہ آور3 تھے جبکہ پولیس کی جانب سے فراہم کردہ گولی سے چھلنی کار کی تصویر نے ظاہر کیا کہ جہاں واقعہ پیش آیا وہاں قریب میں کوئی ٹریفک سگنل موجود نہیں تھا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ شناختی پریڈ واقعہ کے تقریباً 2 سال بعد منعقد کی گئی جب کہ ٹرائل کورٹ کے سامنے گواہ کی جرح نے بھی اس جانب اشارہ کیا کہ اس نے پریڈ سے قبل دونوں اپیل کنندگان کو دیکھا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ صفورا کیس فوجی عدالت منتقل

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ مقتول کی بیوہ ڈاکٹر ٹریسی بھی واقعے میں زخمی ہوئی تھیں اور ان کا شمار اہم عینی شاہدین میں ہوتا تھا تاہم استغاثہ کے گواہوں کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود بغیر کسی وضاحت کے انہیں ٹرائل سے قبل گواہی دینے کے لیے نہیں بلایا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر شک کا فائدہ اپیل کنندگان کو دیتے ہوئے انہیں الزام سے بری کیا جاتا ہے،ان کے خلاف دیے گئے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے، ان کی اپیلیں منظور کی جاتی ہیں

دونوں اپیل کنندگان کو ان کے 3 ساتھیوں کے ساتھ ملٹری کورٹ نے 2016 میں صفورا گوٹھ بس سانحہ، سبین محمود کے قتل اور دیگر مقدمات میں سزائے موت سنائی تھی، اے ٹی سی نے انہیں کچھ دیگر مقدمات میں بھی سزا سنا چکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں