اسلام آباد: ملٹری اپیل کورٹ نے سانحہ صفورا اور سبین محمود قتل کیس کے پانچ ملزمان کی سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دے دیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ( آئی ایس پی آر) نے 12 مئی کو جاری کردہ اعلامیے میں دہشتگردی کے 9 مقدمات میں 5 دہشتگردوں کو سزائے موت دیے جانے کی تصدیق کی تھی جن میں طاہر منہاس، سعد عزیز، اسد الرحمان، محمد اظہر عشرت اور حافظ ناصر احمد شامل تھے۔

ان افراد پر سانحہ صفورا اور سبین محمود کے قتل میں بھی ملوث ہونے کے الزامات تھے اور ان مجرمان نے جون میں اپنی سزائے موت کو ملٹری اپیل کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، ان کے مقدمے کی پیروی حشمت علی حبیب کررہے تھے۔

تاہم فوج کے محکمہ ایڈووکیٹ جنرل کے جج نے ان مجرمان کی اپیل مسترد کردی اور اس حوالے سے 15 اگست کو آگاہی خط سپریٹنڈنٹ سینٹرل جیل کراچی کو بھی بھیجا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'بڑے دہشت گرد حملوں میں تعلیم یافتہ عسکریت پسند ملوث'

خط میں لکھا ہے کہ 'کورٹ آف اپیل نے 25 جولائی کو اپیل مسترد کی اور اس حوالے سے مجرمان کو بھی آگاہ کردیا جائے گا۔'

وکیل صفائی کا کہنا ہے کہ وہ اپیل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے۔

استغاثہ کے مطابق منہاس نامی شخص 13 مئی 2015 کو ہونے والے صفورا گوٹھ حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا جس میں اسماعیلی برادری کے 47 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

وفاقی حکومت نے مارچ 2016 میں یہ مقدمہ فوجی عدالت منتقل کردیا تھا جن کا قیام 21 ویں ترمیم کے تحت عمل میں آیا تھا۔

تحقیقات کے مطابق صفورا حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ طاہر منہاس نے اسماعیلی کمیونٹی کے ارکان کو اس لیے قتل کیا تاکہ وہ شدت پسند تنظیم داعش کی قیادت کو متاثر کرسکے اور اس عالمی دہشت گرد تنظیم میں اہم مقام حاصل کرسکے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ طاہر منہاس مقامی دہشت گردوں پر مشتمل اپنا نیٹ ورک بھی چلا رہا تھا، وہ طالبان کے باہمی اختلافات سے تنگ آچکا تھا اور داعش سے وابستہ ہونا چاہتا تھا۔

اس مقصد کے لیے اس نے داعش کی مقامی قیادت سے رابطہ کیا، اس کا برادر نسبتی عمر عرف جلال بھی کراچی میں القاعدہ نیٹ ورک کا ایک گروہ چلارہا تھا۔

منہاس نے جلال کو بھی داعش میں شمولیت کا مشورہ دیا لیکن جلال نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس نے اسامہ بن لادن کے ہاتھوں اطاعت کی قسم کھائی تھی، تاہم منہاس داعش میں شمولیت کے لیے کوششیں کرتا رہا۔

مزید پڑھیں: سانحہ صفورا: 4 اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزمان گرفتار

تحقیقات کے مطابق 2014 میں داعش نے اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا اور اس کے ترجمان ابو محمد العدانی نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں خراسان صوبے کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا اور فاٹا کی اورکزئی ایجنسی میں طالبان کے سابق امیر حافظ سعید خان کو امیر مقرر کیا گیا۔

منہاس نے حافظ سعید خان سے رابطہ کیا اور داعش کی اطاعت قبول کرلی، اسے کراچی میں داعش کا امیر بھی مقرر کردیا گیا۔

دوسری جانب سعد عزیز نے تحقیقاتی ایجنسی کو بتایا کہ 2014 اور 2015 کے آغاز میں انہوں نے کراچی کے مختلف علاقوں میں داعش کی وال چاکنگ کا منصوبہ بنایا۔

اس مقصد کے لیے دو ٹیمیں تشکیل دی گئیں، ایک کا کام وال چاکنگ کرنا جبکہ دوسری ٹیم کا کام انہیں تحفظ فراہم کرنا تھا۔

انہوں نے بہادرآباد، مرکنٹائل سوسائٹی، کشمیر روڈ، حسن اسکوائر اور غریب آباد انڈر پاس پر داعش کے نعرے درج کردیئے۔

تحقیقات کے مطابق 2002 میں بھی سعد بلوچستان سے ہوتے ہوئے 3 ماہ کی تربیت حاصل کرنے افغانستان گیا تھا، افغانستان میں اپنے قیام کے دوران اس نے اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، ابویحیٰ اور حمزہ المصری سے صوبہ ہلمند میں ملاقاتیں کیں۔

منہاس نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ 2011 سے جلال اسے اور اسے کے ساتھیوں کو فنڈز فراہم کررہا تھا اور ہر فرد کو 30 ہزار روپے ماہانہ ادا کرتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سانحہ صفورا کیس فوجی عدالت منتقل

اس نے مزید بتایا کہ جلال کو سعودی عرب، بحرین اور کویت سے فنڈز ملتے تھے، اس کا کام القاعدہ نیٹ ورک سے وابستہ ارکان کو ان کے ملک سے پاکستان لانا، پھر انہیں افغانستان بھیجنا اور پھر بحفاظت ان کی اپنے وطن واپسی کا بندوبست کرنا تھا۔

جب یہ ارکان اپنے ملک واپس پہنچ جاتے تو وہاں سے جلال کو بھاری رقم ادا کرتے، جلال عربی روانی سے بولتا تھا اس لیے وہ القاعدہ کے عرب ارکان سے بھی براہ راست رابطے میں تھا۔

اپیل میں پانچوں سزا یافتگان کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے ان کے مقدمات کو فوجی عدالت منتقل کرتے ہوئے اُس طریقہ کار پر عمل نہیں کیا جو تحفظ پاکستان ایکٹ میں درج ہے۔

اپیل میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ فوجی حکام نے ملزمان کو اپنی پسند کے وکیل مقرر کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا اور ایسے ماحول میں ہونے والا ٹرائل آئین کے آرٹیکل 10 (اے) کی روح کے خلاف ہے جو شفاف ٹرائل کو یقینی بناتا ہے۔

اپیل میں سانحہ صفورا اور سبین محمود قتل کیس کے حوالے سے تشکیل دی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا گیا تھا کہ عدالت کی کارروائی سیاسی مقاصد کے لیے گھڑی گئی کہانی کو بنیاد بناکر چلائی گئی۔

یہ خبر 21 اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں