حکومت کے پاس سیاسی محاذ پر واپسی کے لیے کافی وقت ہے، اسحٰق ڈار

اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2022
وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈونرز کو ٹارگٹڈ سبسڈیز پر کوئی اعتراض نہیں ہے، وہ عام سبسڈی کے خلاف ہیں—فوٹو:ڈان نیوز
وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈونرز کو ٹارگٹڈ سبسڈیز پر کوئی اعتراض نہیں ہے، وہ عام سبسڈی کے خلاف ہیں—فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت کے لیے سیاسی ساکھ بحال کرنے اور عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے 10 ماہ کافی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی سیاست بچانے یا ریاست بچانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا اور ہم نے ریاست کو بچانے کا انتخاب کیا، ہم جانتے تھے کہ اس فیصلے کے ہماری سیاست پر منفی نتائج ہوں گے لیکن ہم نے ریاست بچانے کا انتخاب کیا۔

وزیر خزانہ ورلڈ بینک گروپ کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے واشنگٹن میں تھے اور ان کی تقریباً تمام میٹنگز معیشت اور حالیہ سیلاب کے لوگوں اور انفرااسٹرکچر پر پڑنے والے اثرات سے متعلق تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر خزانہ کا آئی ایم ایف سے پاکستان کیلئے زیادہ پالیسی سپورٹ کا مطالبہ

لیکن نیوز کانفرنس کے دوران پوچھے جانے والے کئی ابتدائی سوالات اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے متعلق تھے جن میں پی ٹی آئی نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔

ضمنی انتخاب کے نتائج پر اظہار خیال کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ جو جماعتیں اس حکومت میں شامل ہیں وہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے نتائج سے آگاہ تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایسا کیا کیونکہ یہ جماعتیں اگر ایسا نہ کرتیں تو اس کے پاکستان کے لیے تباہ کن نتائج ہوتے، انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کو جاری رہنے دینا سیلاب سے بھی بدتر ہوتا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق صدر جو بائیڈن کے بیان سے عمران خان کی انتخابی مہم کو تقویت ملی وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ ملک میں مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم موجود ہے اور امریکی حکام بھی اکثر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن جب کوئی سیاست دان جیسے کہ عمران خان جو خود وزیر اعظم رہ چکے ہیں جب اس طرح کی بات کرتے ہیں کہ میرے دور میں جوہری پروگرام اچھا تھا لیکن اب نہیں تو پھر دنیا اسی طرح کا ردعمل ظاہر کرے گی، آپ کو اس کی مذمت کرنی چاہیے، وہ بہت گری ہوئی سیاست کر رہےہیں۔

مزید پڑھیں: اسحٰق ڈار امریکا روانہ، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کریں گے

وزیر خزانہ نے بتایا کہ واشنگٹن میں اپنے 4 روزہ قیام کے دوران انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہوں اور امریکی، سعودی اور دیگر ممالک کے حکام سے 58 ملاقاتیں کیں، انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک اور برطانیہ نے سیلاب سے متعلق گول میز کانفرنس کی بھی میزبانی کی جہاں یو این ڈی پی، اے ڈی بی اور ڈبلیو بی کے حکام نے مشترکہ رپورٹ پیش کی۔

پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے پاکستان کو مجموعی طور پر 32 ارب 40 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے، پاکستان کو فوری امداد اور بحالی کے کاموں کے لیے 16 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے، وزیر خزانہ نے بتایا کہ اجلاس کے دوران عالمی برادری سے پاکستان کی مدد کرنے کی پرزور اپیل کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنا موجودہ آئی ایم ایف پروگرام جون 2023 تک مکمل کر لے گا اور اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کرے گا۔

اسحٰق ڈار نے کہا ہم اصلاحات کے لیے پرعزم ہیں، تقریباً 5 سے 10 فیصد کام زیر التوا ہے جو جلد مکمل کر لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر خزانہ دو طرفہ قرضوں کی ادائیگی کی مدت میں توسیع کیلئے کوشاں

اپنے قیام کے دوران ایک نیوز بریفنگ میں اٹھائے گئے سبسڈیز پر آئی ایم ایف کے اعتراض کے بارے میں، وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈونرز کو ٹارگٹڈ سبسڈیز پر کوئی اعتراض نہیں ہے، وہ عام سبسڈی کے خلاف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنے اعتراض میں آئی ایم ایف حکام شاید بجلی کی سبسڈی کا حوالہ دے رہے تھے جو ہم نے دی تھی، یو این جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران پاکستان نے آئی ایم ایف کے سربراہ سے اس معاملے پر بات کی اور اس پر فیصلہ کرنے کو کہا، انہوں نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا، ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا لیکن ہم ان سے مشورہ کیے بغیر کچھ نہیں کر رہے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ قیمتوں میں کمی کے لیے واشنگٹن نہیں آئے، ایسے فیصلے ہم اپنے ملک میں ہی کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں