آصف زرداری کی سپریم کورٹ سے جعلی اکاؤنٹس کیس سے متعلق درخواست کی جلد سماعت کی استدعا

28 اکتوبر 2022
عمل درآمد بینچ 7 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دیا گیا تھ—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
عمل درآمد بینچ 7 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دیا گیا تھ—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

سابق صدر آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ سے اپنی درخواست پر 17 نومبر سے شروع ہونے والے ہفتے سے سماعت کرنے کی استدعا کی ہے جس میں انہوں نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیسز سے متعلق معاملے پر وضاحت طلب کی کیونکہ مارچ سے التوا ان کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزار نے اپنے وکیل سینیٹر فاروق ایچ نائیک کے ذریعے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے گزشتہ سال 28 دسمبر اور رواں سال 7 فروری کے احکامات کو کالعدم قرار دیا جائے۔

مذکورہ حکم میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق قومی احتساب بیورو کی جانب سے دائر ریفرنسز کو کالعدم قرار دینے کی درخواست صرف سپریم کورٹ کا عملدرآمد بینچ ہی سن سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’آصف زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس‘: نیب 33 ارب روپے وصول کر چکا ہے، فواد چوہدری

عمل درآمد بینچ 7 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دیا گیا تھا جس میں نیب کو بینچ کو متواتر رپورٹس جمع کرانی تھیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی مشاہدہ کیا تھا کہ ہائی کورٹ کو اس معاملے کو آگے نہیں بڑھانا چاہئے کیونکہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق شروع کی گئی کارروائی کے ساتھ کسی ابہام، تنازع یا شکایت کو سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ کے ذریعے نمٹایا جانا ہے۔

نتیجتاً درخواست گزار نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو اس کے سامنے زیر التوا اپیلوں کی سماعت کرنے کی ہدایت کے ساتھ اس کے حکم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست گزار نے دلیل دی کہ ہائی کورٹ کے پاس معاملہ اٹھانے کا دائرہ اختیار ہے اور عملدرآمد بینچ کے ذریعہ سماعت کی ضرورت نہیں۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹ کیس منتقلی کےخلاف درخواست پر جلد سماعت کی جائے، زرداری

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عملدرآمد بینچ کے سامنے کوئی بھی درخواست یا اپیل دائر کرنے سے اپیل کا حق چھن جائے گا جیسا کہ قانون کے تحت ملزمان کو فراہم کیا گیا ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 4 اور آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہوگی۔

درخواست میں مزید مؤقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے جنوری 2019 کے حکم کا یہ کبھی ارادہ نہیں تھا کہ احتساب عدالتوں کے حکم کے خلاف اٹھنے والی اپیلیں عملدرآمد بینچ کے پاس دائر کی جائیں۔

7 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے تحقیقات دو ماہ کے اندر مکمل کی جائیں گی اور قابلِ سزا جرم ثابت ہونے کی صورت میں حتمی ترکیب رپورٹ میں موجود سفارشات پر عمل کیا جائے اور احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ تاہم تحقیقات مکمل کیے بغیر نیب نے ایک عبوری ریفرنس دائر کیا، جو ایک ایسی کارروائی تھی جس کی نیب قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: سابق صدر آصف زرداری کے خلاف 8 ارب روپے کی بدعنوانی کا ریفرنس دائر

مزید یہ کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے دو ماہ کے وقفے کے بعد 12 جون 2019 کو ریفرنس دائر کیا گیا۔

درخواست گزار کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے کوئی عملدرآمد بینچ تشکیل دیا گیا تھا اور کیا نیب کی جانب سے کوئی متواتر رپورٹس دائر کی گئی تھیں اور کیا انہیں عملدرآمد بینچ کے سامنے رکھا گیا تھا۔

این اے او کے سیکشن 17 کی روشنی میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ 1898 کے ضابطہ فوجداری کی دفعات تمام کارروائیوں پر لاگو ہوتی ہیں۔

لہٰذا کرمنل کوڈ پروسیجر میں بیان کردہ طریقہ کار تمام درخواستوں بشمول احتساب عدالت کے پریذائیڈنگ افسر کے زیر غور درخواست۔ پر لاگو ہو گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں