سپریم کورٹ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) میں 80 پائلٹس سمیت 250 بھرتیوں کی فوری اجازت دینے کی درخواست مسترد کردی۔

عدالت عظمیٰ میں پی آئی اے کی بھرتیوں کی اجازت کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، سماعت کے دوران قومی ایئرلائن نے عدالت سے مزید 250 ملازمین بھرتی کرنے کی اجازت مانگی۔

جس پر سپریم کورٹ نے نئے ملازمین کی بھرتیوں کے حوالے سے تفصیلات طلب کرتے ہوئے قومی ایئرلائن سے پوچھا کہ نئے ملازمین کو تنخواہیں کہاں سے دینگے؟

عدالت عظمیٰ نے نئے ملازمین کو کن عہدوں پر اوربھرتی کرنے کی وجوہات پر تفصیلات طلب کرلیں

عدالت نے پی آئی اے سے بزنس پلان اور ریونیو کی تفصیلات بھی مانگ لیں۔

عدالت نے قومی ایئرلائن کی فوری طور پر 80 پائلٹس سمیت 250 بھرتیوں کی اجازت دینے کی استدعا مسترد کردی۔

جس پر قومی ایئرلائن کے وکیل نے کہا کہ پی آئی اے پانچ نئے جہاز خریدنا چاہتا ہے۔

جس پر معزز عدالت نے نئے جہازوں کیلئے روٹس اور ادائیگی کی تفصیلات طلب کر لیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ یورپ امریکا اور کینیڈا سمیت تمام روٹ تو پی آئی اے کے بند ہوچکے، ڈومیسٹک فلائیٹ کے لیے پی آئی اے میں کوئی بیٹھنا نہیں چاہتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ مزید 80 پائلٹ کیا کریں گے جب کُل جہاز ہی 30 ہیں؟

جس پر قومی ایئرلائن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے سال 2018 میں پی آئی اے میں ملازمین کی بھرتیوں پر پابندی عائد کی تھی بعد ازاں سال 2019 میں حج آپریشن کیلئے بھرتیوں کی اجازت دی گئی تھی۔

وکیل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باعث ازخود بھرتیاں نہیں کر سکتے۔

جس پرچیف فنانشل آفیسرنے کہا کہ پی آئی اے میں مجموعی طور پر 370 پائلٹ تھے جن میں سے 34 استعفے دے چکے ہیں، پی آئی اے نے 11 ماہ میں 154 ارب روپے کمائے، موجودہ آپریشنز کے تمام اخراجات خود برداشت کر رہے ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ پی آئی اے کے پاس 20 جہاز اپنے ہیں جبکہ 10 جہاز لیز پر ہیں اس کے علاوہ 7 جہاز بین الاقوامی آپریشنز میں حصہ لیتے ہیں

پاکستان ایئرلائن کے وکیل نے کہا کہ سال 2018 سے اب تک 6 ہزار سے زائد ملازمین نکالے جا چکے ہیں۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فنانشل آفیسر صاحب نے تو خوبصورت تصویر کشی کی ہے لیکن حقائق ایسے نہیں، انہوں نے سوال کیا کہ ادارہ مشکل سے اپنا خرچہ پورا کر رہا ہے جہازوں کے پیسے کہاں سے دے گا؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کہ ایسا نہ ہو بعد میں پی آئی اے جہازوں کی قسطیں اور تنخواہوں کے لیے حکومت سے گرانٹ مانگ رہی ہو،6 ہزار ملازمین کم کیے اب بھرتیاں کرکے دوبارہ حالات وہیں لے جا رہے ہیں،

عدالت نے مزید سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

پی آئی اے کا ملازمین کی تعداد میں کمی کا فیصلہ

خیال رہے کہ 11 جنوری 2011 کو پی آئی اے نے اربوں روپے کی بچت کے لیے اپنے ملازمین کے تناسب کو فی طیارے کے حساب سے کم کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

پی آئی اے نے طیاروں کے لیے ملازمین کی تعداد 550 سے کم کر کے 260 کردیے تھے۔

پی آئی اے سربراہ ایئر مارشل ارشد ملک نے کہا تھا کہ ملازمین کی تعداد میں کمی سے ایئرلائن کو سالانہ 8 ارب روپے تک کی بچت ہوگی۔

سال 2020 میں پی آئی اے نے 29 طیاروں کے لیے ملازمین کی تعداد کو کم کر کے ساڑھے 7 ہزار سے 8 ہزار تک لانے کا ہدف طے کیا تھا جو کہ کُل تعداد کا تقریباً نصف ہے۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں پی آئی اے انتظامیہ نے بتایا تھا کہ قومی ایئرلائن کے 29 طیاروں کے لیے ساڑھے 14 ہزار ملازمین ہیں، جبکہ ترکش ایئرلائنز کے 329 طیاروں کے لیے 31 ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں۔

پی آئی اے کے سربراہ نے مزید کہا تھا کہ ایئرلائن نے آنے والے برسوں میں کم ایندھن خرچ کرنے والے جدید ترین طیارے بھی اپنے بیڑے میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، امید ہے کہ اس سے ایئرلائن کی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی میں اضافہ ہوسکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں