کابل: افغان معلم کا خواتین پر عائد پابندی کے خلاف جدوجہد کا عزم

اپ ڈیٹ 01 جنوری 2023
ملک بھر کی  یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے سے متعلق خواتین پر عائد پابندی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے سے متعلق خواتین پر عائد پابندی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے سے متعلق خواتین پر عائد پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لائیو ٹیلی ویژن پر اپنے ڈگری سرٹیفکیٹ کو پھاڑ پھینک کر طوفان برپا کرنے والے افغان ماہر تعلیم نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ اس حکم کے خلاف لڑے گا چاہے اس میں اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کابل کی 3 یونیورسٹیوں میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک شعبہ صحافت کے لیکچرار کی خدمات انجام دینے والے اسمٰعیل مشعل نے خواتین پر عائد پابندی کا حکم جاری ہونے کے بعد بطور احتجاج اپنی ذمے داریوں سے استعفیٰ دے دیا۔

35 سالہ اسمٰعیل مشعل نے افغان دارالحکومت میں اپنے دفتر میں غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا میں آواز اٹھا رہا ہوں، میں اپنی بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں، میرا احتجاج جاری رہے گا چاہے اس کے لیے مجھے اپنی جان کی قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ بطور ایک مرد اور ایک استاد میں ان کے لیے کچھ اور کرنے سے قاصر تھا اور مجھے اپنے سرٹیفکیٹ بہت بے وقعت محسوس ہوئے، اس ہی لیے میں نے انہیں پھاڑ دیا، طلوع نیوز پر نشر ہونے والی اسمٰعیل مشعل کے غصے کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

خواتین پر یونیورسٹی جانے پر عائد پابندی کا جواز بتاتے ہوئے حکام کا کہنا ہے کہ یہ پابندی اس لیے عائد کی گئی کیونکہ وہ سختی سے اسلامی ڈریس کوڈ کی پابندی نہیں کر رہی تھیں جب کہ اسمٰعیل مشعل جو خود بھی مردوں اور عورتوں کا اپنا ایک تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں نے اس وجہ کو مسترد کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکام نے ہمیں خواتین کے لیے حجاب پہننے کو نافذ کرنے کے لیے کہا، ہم نے حکم کی پابندی کی، انہوں نے ہمیں کلاسوں کو علیحدہ کرنے کو کہا، ہم نے وہ بھی کیا۔

اسمٰعیل مشعل نے مزید کہا اس کے باجود طالبان نے ابھی تک پابندی عائد کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں بتائی جس کی وجہ سے ملک بھر کی لاکھوں لڑکیاں متاثر ہو رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین پر اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے کی اسلامی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔

کیونکہ ملک میں لڑکیوں پر چھٹی جماعت کے بعد اسکول جانے پر پابندی عائد ہے، اس لیے چھٹی جماعت میں زیر تعلیم اپنی بیٹی کے لیے فکرمند اسمٰعیل مشعل نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسے اپنی بیٹی کو بتاؤں کہ وہ چھٹی جماعت کے پڑھنا چھوڑ دے، اس نے ایسا کیا جرم کیا ہے؟

گزشتہ ماہ افغان طالبان نے ملک میں خواتین کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی، افغانستان کی وزارت ہائر ایجوکیشن نے تمام سرکاری اور نجی جامعات کو جاری خط میں لکھا تھا کہ غیرمعینہ مدت کے لیے لڑکیوں کی جامعات میں تعلیم پر پابندی ہوگی۔

واضح رہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے خواتین پر متعدد پابندیاں بشمول اعلیٰ تعلیم، ملازمت، پارکس میں جانے سمیت مرد کے علاوہ اکیلے سفر کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

طالبان حکام کی طرف سے خواتین پر مکمل لباس اور برقع پہننے پر بھی سختی کی گئی ہے جس کے خلاف بھی متعدد شہروں میں مظاہرے ہو چکے ہیں۔

طالبان نے حالیہ ہفتوں میں مبینہ جرائم پر مردوں اور خواتین کو سرعام کوڑے مارتے ہوئے اسلامی قوانین سختی سے نافذ کرنے کا پیغام دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں