بلوچستان: بارکھان کنویں سے خاتون سمیت 3 لاشیں برآمد، عبدالرحمٰن کھیتران نے الزامات مسترد دیے

اپ ڈیٹ 22 فروری 2023
پولیس کے مطابق قتل کیےجانے والے شہری  ماں اور بیٹے ہیں — فائل فوٹو: ڈان
پولیس کے مطابق قتل کیےجانے والے شہری ماں اور بیٹے ہیں — فائل فوٹو: ڈان

بلوچستان پولیس کے انسپکٹر جنرل نے صوبے کے ضلع بارکھان کے علاقے میں ایک کنویں سے گولیوں سے چھلنی 3 لاشوں کی برآمدگی کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا جبکہ صوبائی وزیر عبدالرحمٰن کھیتران نے الزامات مسترد کردیے ہیں۔

پولیس کے مطابق گزشتہ شب بارکھان سے 7 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ایک کنویں سے بوری بند تین لاشیں برآمد ہوئیں جن میں ایک لاش خاتون اور دو لاشیں مردوں کی ہیں۔

پولیس کے مطابق مقتول خاتون کی شناخت 45 سالہ گران ناز جب کہ قتل ہونے والے مردوں کی شناخت محمد نوار اور عبدالقادر کے ناموں سے ہوئی جن کی عمریں 15 سے 20 سال کے درمیان ہیں، پولیس کے مطابق قتل ہونے والے شہری ماں اور بیٹے ہیں۔

پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ لاشیں 20 فروری کو رات 8 بجے ملیں اور بارکھان پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر کو کنویں سے لاشیں ملنے کے بارے میں آگاہ کیا گیا، انہیں جیسے اس واقعے کے بارے میں بتایا تو وہ فوراً پولیس پارٹی کے ساتھ جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔

بیان میں کہا گیا کہ لاشیں نویں سے نکال کر سول ہسپتال بارکھان منتقل کر دی گئیں، جہاں انہیں عبدالقیوم بجرانی مری نے شناخت کر لیا جس سے پولیس نے انہیں ان کا وارث قرار دیا ہے، قانونی چارہ جوئی کے بعد لاشیں ان کے حوالے کردی گئیں۔

پولیس کے بیان کے مطابق خاتون کے شوہر اور بچوں کے والد خان محمد مری کی مدعیت میں 18 جنوری 2023 کو مقتولین سمیت خاندان کے دیگر افراد کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔

مقدمے میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ترجمان اور صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمٰن کھیتران، جو کوہلو بارکھان سے منتخب نمائندے ہیں، کو نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے کے مدعی محمد مری نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو ٹیلی فونک گفتگو کے دوران بتایا کہ 2019 میں سردار عبدالرحمٰن کھیتران اور ان کے بیٹے سردار انعام کھیتران کے درمیان تنازع میں گواہی نہ دینے پر اس کی بیوی اور جواں سالہ بیٹی سمیت 7 بچوں کو سردار نے نجی جیل میں قید کر لیا تھا۔

تاہم خان محمد مری کی بیوی کی رہائی سے متعلق ویڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر منظر عام پر آئی تھی جس کے بعد ان کی لاشیں کوہلو کے علاقے بارکھان کے دور درزا علاقے میں کنویں سے برآمد ہوئی ہیں جنہیں تشدد کر کے قتل کیا گیا ہے۔

محمد مری خان کا مزید بتانا تھا کہ ان کے مزید 5 بچے جن میں عبدالمجید، فرزانہ عبدالستار، عبدالغفار اور محمد عمران جن کی عمریں 8 سے 20 سال کے درمیان ہیں زیر حراست ہیں۔

ڈان ڈاٹ کام نے ویڈیو کی تصدیق کی جس میں موجود خاتون خان محمد کی بیوی اور اس واقعے میں قتل کیے گئے تین افراد میں سے ایک ہے۔

ویڈیو میں گیرن کو قرآن ہاتھ میں پکڑ کر کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں، یہ قرآن سب سے بڑھ کر ہے، سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے مجھے جیل میں قیدی بنا کر رکھا، وہ روز میری بیٹی کا جنسی استحصال کرتا ہے اور میرے بیٹوں کو بھی قید کر رکھا ہے، کوئی ہمیں رہائی دلائے۔

واقعے کی ایف آئی آر اب تک درج نہیں کی گئی۔

پولیس کی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ 16 نومبر کو بارکھان کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی)، سب ڈویژنل پولیس افسر، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، ایس ایچ او اور انسداد دہشت گردی فورس کی ٹیم پر مشتمل ایک پولیس پارٹی نے بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمن کھیتران کے حاجی کوٹ کے گھر پر چھاپہ مارا لیکن وہاں کوئی نہیں ملا۔

پولیس کے بیان میں مزید کہا گیا کہ 18 جنوری کو خان محمد مری نے متعلقہ حکام کو ایک درخواست جمع کرائی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی بیوی اور بچوں کو عبدالرحمٰن کھیتران کی نجی جیل میں قیدی بنا کر رکھا گیا ہے اور ان پر تشدد کیا جا رہا ہے، انہوں نے ان کی فوری بازیابی کی درخواست کی تھی۔

اعلامیے کہا گیا کہ ایس پی بارکھان کو خان محمد کے اہل خانہ کی فوری بازیابی کے لیے ہدایات دی گئی تھیں، انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے مغوی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اس سلسلے میں مزید وضاحت کی گئی کہ ان کے اہل خانہ کی لاشیں سومیانی میں ایک کنویں میں بوریوں میں بند پائی گئیں، مقتولین کے ورثا کی جانب سے مقدمے کے اندراج کے بعد مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ہر پہلو سے تفتیش کر رہے ہیں۔

خان محمد نے بتایا کہ مقتولین کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے اور لواحقین اب لاشوں کے ساتھ کوئٹہ جا رہے ہیں تاکہ وزیراعلیٰ ہاؤس یا ہائی کورٹ کے سامنے احتجاج کیا جا سکے۔

مظاہرین لاشوں کے ساتھ دن میں کوئٹہ پہنچے اور وزیر کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ریڈ زون کے باہر دھرنا دیا۔

خان مری کا کہنا ہے کہ بیوی اور بیٹوں کی میتیں ملنے کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا کردی گئی ہیں اور لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ کی طرف آرہے ہیں تاکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس اور ہائی کورٹ کے سامنے احتجاج کریں۔

میرے گھر سے دور لاشیں گرانے میں میرا بیٹا پیش پیش ہے، عبدالرحمٰن کھیتران

دوسری جانب سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے الزام کو مسترد کرتے ہوئے معاملے کو ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے پروپیگنڈا قرار دیا ہے جس میں ان کے بیٹے سردار انعام کھیتران شامل ہیں اور بیٹے ہی نے ویڈیو بنا کر اسے وائرل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مخالفین کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔

بلوچستان کے وزیر مواصلات عبدالرحمٰن کھیتران نے نجی چینل ’جیو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ منظم طریقے سے میرے خلاف محاذ بنایا ہوا ہے، میں گزشتہ 10 دن سے کوئٹہ میں ہوں اور اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کر رہا ہوں، کل رات میرے گھر سے 2 کلو میٹر دور تین لاشیں گرائی گئی ہیں، اس میں میرا چوتھے نمبر کا بیٹا پیش پیش ہے، اس کا نام انعام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا سیاست بھی کرنا چاہتا ہے اور سردار بھی بننا چاہتا ہے، میرے بعد میرا بڑا بیٹا سردار بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں کسی پر الزام نہیں لگا رہا، میں نے وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) بنائیں، تحقیقات ہوں، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

قتل کرنے والے سے متعلق سوال پر عبدالرحمٰن کھیتران نے کہا کہ مجھے اس بارے میں کچھ نہیں پتا، میں کوئٹہ میں ہوں، مجھے علم نہیں ہے کہ کس نے قتل کیا۔

معاملے کی ایف آئی آر سے متعلق انہوں نے کہا کہ کوئی ایف آئی آر درج کروانے جائے گا تو پولیس ایف آئی آر درج کرے گی، بغیر کسی ثبوت کے کیا منطق ہے؟ دنیا میں کہیں ایسا ہوا ہے کہ میں یہاں 500 کلو میٹر دور بیٹھا ہوں اور میرے خلاف ایف آئی آر درج ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ میرے خلاف 2013 سے یہ الزامات لگ رہے ہیں، میں 2014 سے 2018 تک میں جیل میں رہا، اگر کوئی نجی جیل ہوتی تو اس زمانے میں یہ نجی جیل برآمد کر لیتے۔

خود پر الزام کی شفاف تحقیقات کے لیے عہدے سے استعفیٰ دینے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں کیوں مستعفی ہوں گا؟ کوئی مجھ پر الزام لگائے گا تو میں استعفیٰ دے دوں گا، میں پولیس کے سامنے تفتیش کے لیے پیش ہوں گا‘۔

وزیراعلیٰ کا نوٹس، جے آئی ٹی تشکیل

وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بارکھان واقعے کا نوٹس لیا اور افسوس ناک واقعے کے متاثرہ خاندان سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا۔

بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے محکمہ داخلہ کو واقعے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ متاثرہ خاندان کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دی جاۓ گی۔

وزیراعلیٰ کی ہدایت پر صوبائی وزیر داخلہ میر ضیااللہ لانگو نے بارکھان واقعے پر جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کیا۔

میر ضیا لانگو نے کہا کہ بارکھان واقعے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن آج جاری کردیا جائے گا جبکہ واقعے کا مقدمہ تاحال درج نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ واقعے پر حکومت اپنی آنکھیں بند نہیں کرے گی، اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبے بھر کی ضلعی انتظامیہ کو لکھا تھا کہ جہاں نجی جیلیں موجود ہیں اس سے آگاہ کریں لیکن آج تک نجی جیلوں کے حوالے سے کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔

بعد ازاں انہوں نے بیان میں کہا کہ بارکھان واقعےکی تحقیقات کے لیے محکمہ داخلہ بلوچستان نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے، جس کے چیئرمین ڈی آئی جی لورالائی ڈویژن کو مقرر کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے دیگر اراکین میں ایس ایس پی انوسٹی گیشن کوئٹہ، اور اسپیشل برانچ بارکھان کا نمائندہ بھی شامل ہے اور اس کے علاوہ جے آئی ٹی کسی کو بھی رکن نامزد کرسکتی ہے۔

صوبائی وزیرداخلہ نے کہا کہ پانچ رکنی جے آئی ٹی 30 دن میں اپنی رپورٹ مرتب کرکے پیش کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلی کی ہدایت پر ہم نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے، اور واقعے کی غیرجانب دارانہ تحقیقات کرائیں گے۔

صوبائی اسمبلی کا اجلاس

بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی بارکھان واقعے پر بحث کی گئی اور شہریوں کے قتل پر اظہار مذمت کیا گیا۔

صوبائی وزیر تعلیم نصیب اللہ مری نے کہا کہ بارکھان میں خاتون سمیت 3 افراد کو قتل کیا گیا، یہ ایک دلخراش واقعہ ہے، میڈیا پر خبر چلی، سینیٹ میں بھی اس پر بات ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب بے حس تھے، خاموش رہے ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں، اگر کوئی کارروائی ہوتی تو کل کا واقعہ پیش نہ آتا۔

صوبائی وزیر تعلیم نصیب اللہ مری نے کہا کہ وزیر اعلی سے گزارش کرتا ہوں کہ واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے، جو اس واقعہ میں ملوث ہوں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

بارکھان میں خاتون سمیت تین افراد کے قتل کے واقعے کے خلاف نصیب اللہ مری اور زابد ریکی نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں