حکومت نے توشہ خانہ تحائف کا ’سیل شدہ‘ ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیا

اپ ڈیٹ 21 فروری 2023
عدالت عالیہ نے ریمارکس دیے کہ سیل شدہ ریکارڈ کو ابھی نہیں کھول رہے— فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ
عدالت عالیہ نے ریمارکس دیے کہ سیل شدہ ریکارڈ کو ابھی نہیں کھول رہے— فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ

وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ میں 1947 سے اب تک توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے کی تفصیلات کی فراہمی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران سیل شدہ ریکارڈ پیش کردیا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے توشہ خانہ کا سیل شدہ ریکارڈ اس کو پبلک کرنے کی درخواست کی سماعت کے دوران سنگل رکنی بینچ کے سامنے پیش کیا گیا۔

یہ درخواست شہری منیر احمد نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے دسمبر 2022 میں دائر کی تھی، جسٹس عاصم حفیظ نے درخواست پر سماعت کی۔

درخواست میں قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ سے دیے گئے تحائف اور جن اشخاص کو تحفے دیے گئے ان کی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔

آج کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کا سیل شدہ ریکارڈ لاہور ہائی کورٹ میں پیش کردیا، سیکشن افسر بنیامین نے توشہ خانہ کا ریکارڈ عدالت عالیہ میں پیش کیا۔

دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے مؤقف اپنایا کہ یہ ریکارڈ کلاسیفائیڈ ہے، اگر عدالت چاہے تو اسے منظر عام پر لا سکتی ہے، توشہ خانہ کے ریکارڈ کو پبلک کر نے بارے میں آئندہ وفاقی کابینہ اجلاس میں فیصلہ ہونا ہے۔

اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیل شدہ ریکارڈ کو ابھی نہیں کھول رہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے 23 فروری کو توشہ خانہ کے سربراہ کو بیان حلفی کے ساتھ طلب کر لیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ایک سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے قیام پاکستان کے بعد سے سیاسی حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو غیر ملکی شخصیات کی جانب سے ملنے والے توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

عدالت کے حکم کے جواب میں حکومت نے عدالت میں مؤقف اپنایا تھا کہ توشہ خانہ معلومات افشا کرنے سے غیر ملکی تعلقات خراب ہو سکتے ہیں، حکومت کے جواب پر عدالت نے ہدایت کی تھی کہ معلومات کے ’کلاسیفائیڈ‘ ہونے کے حوالے سے 2 ہفتے میں حلف نامہ جمع کرایا جائے۔

سیکریٹری کابینہ کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا تھا کہ 26 نومبر 2015 کے وزیراعظم آفس کے سرکلر کے تحت توشہ خانہ کے تحائف کی معلومات کلاسیفائیڈ ہوتی ہیں، ایسی معلومات کو افشا کرنے سے غیر ضروری میڈیا تشہیر ہو سکتی ہے جس سے غیر ملکی تعلقات کو نقصان ہو سکتا ہے، بین الاقوامی پریکٹس کے مطابق نئی توشہ خانہ پالیسی بنا رہے ہیں ۔

سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے جواب میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم نے بین الاوزارتی کمیٹی بنائی جس نے پالیسی پر اپنی تجاویز جمع کرائیں، نیا توشہ خانہ بل وزیراعظم آفس کی منظوری کے بعد وفاقی کابینہ کے روبرو رکھا گیا، ہدایت کی روشنی میں توشہ خانہ بل کابینہ کے ارکان کو بھیج دیا ہے۔

خیال رہے کہ توشہ خانہ، کابینہ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول کے تحت 1974 میں قائم کیا گیا محکمہ ہے جو حکمرانوں، اراکین پارلیمنٹ، بیوروکریٹس کو دیگر ممالک کی حکومتوں اور ریاستوں کے سربراہان اور غیر ملکی مہمانوں کی جانب سے دیے گئے قیمتی تحائف کو اپنی تحویل میں رکھتا ہے۔

یہ محکمہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کے تحائف اور ان کی مبینہ فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی تفصیلات شیئر نہ کرنے اور جھوٹے بیانات اور غلط ڈیکلیریشن پر ان کی نااہلی کی وجہ سے حالیہ دنوں میں خبروں میں رہا ہے۔

توشہ خانہ قوانین کے مطابق تحائف اور اس طرح کی موصول ہونے والی دیگر اشیا کو کابینہ ڈویژن میں رپورٹ کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں