جوہری پروگرام سے متعلق میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جارہا ہے، وزیر خزانہ

اپ ڈیٹ 21 مارچ 2023
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے میرا بیان ایک سینیٹر کے مخصوص سوال کے جواب میں تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے میرا بیان ایک سینیٹر کے مخصوص سوال کے جواب میں تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق سینیٹ میں دیے گئے ان کے بیان کو ’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘ پیش کیا جا رہا ہے جب کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام میں تاخیر کچھ ’تکنیکی وجوہات‘ کے باعث ہوئی۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں اسحٰق ڈار نے کہا کہ سینیٹ کے فلور پر آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کی وجوہات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں دیے گئے میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے میرا بیان ایک سینیٹر کے مخصوص سوال کے جواب میں تھا جس میں، میں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان کو اپنا جوہری پروگرام رکھنے کا حق حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کا جوہری پروگرام کسی بیرونی ڈکٹیشن کے بغیر ہمارے قومی مفادات کے مطابق ہے جسے کسی بھی طرح سے آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات سے جوڑنا نہیں چاہیے۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہونا چاہیے کہ نہ تو آئی ایم ایف اور نہ ہی کسی ملک نے ہماری جوہری صلاحیت کے حوالے سے کوئی شرط عائد کی اور نہ ہی پاکستان سے ایسا کوئی مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے میں تاخیر خالصتاً تکنیکی وجوہات کی بنا پر ہوئی ہے، آئی ایم ایف پروگرام بحالی کے لیے ہم مسلسل کام کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے سینیٹ کی گولڈن جوبلی کی تقریب کے حوالے سے منعقدہ ایوان کی ہول کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ نیوکلیئر یا میزائل پروگرام پر کوئی بھی سمجھوتا نہیں کرے گا، ہمیں قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے، کسی کو حق نہیں کہ پاکستان کو بتائے کہ وہ کس رینج کے میزائل یا ایٹمی ہتھیار رکھے۔

وزیر خزانہ کا یہ بیان سینیٹر رضا ربانی کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کی وجوہات پر اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں سامنےآیا تھا۔

پی پی پی سینیٹر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سینیٹ کو آئی ایم ایف کی شرائط پر نہ پہلے اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی آج، معاہدے میں ہونے والی تاخیر کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہا تھا کہ یہ تاخیر ملک کے جوہری پروگرام یا چین کے ساتھ اس کے اسٹریٹجک تعلقات پر کسی قسم کے دباؤ کی وجہ سے ہو رہی ہے یا اس وجہ یہ ہے کہ کوئی سامراجی طاقت خطے میں اپنی موجودگی چاہتی ہے۔

سینیٹر رضا ربانی کے بیان کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ میں نے ماضی میں سب سے پہلے آئی ایم ایف معاہدہ ویب سائٹ پر ڈالا تھا، جیسے ہی آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہو جائے گا اسے وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے گا۔

آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام نیا نہیں جو اس حکومت نے کیا ہو، یہ پروگرام 2019 میں سابقہ حکومت نے شروع کیا، یہ 2020 میں مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر حکومت کی جانب سے نہیں ہے، آئی ایم ایف سے اس بار بات چیت بہت طویل اور بہت غیر معمولی ہے جس میں بہت زیادہ مطالبات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر چیز مکمل کرلی ہے، چند دوست ممالک نے پاکستان کو سپورٹ کرنے کے وعدے کیے تھے، آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ وہ ان وعدوں کو مکمل کریں، صرف یہی تاخیر کی وجہ ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے، اسٹیٹ بینک کے موجودہ ذخائر 4 ارب 30 کروڑ ڈالر ہیں جو بمشکل چند ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔

ایسی صورت حال میں ملک کو فوری طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت ہے، جس سے نہ صرف ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ملیں گے بلکہ دوست ممالک اور دیگر کثیر الجہتی قرض دہندگان کی جانب سے فنڈز ملنے کی راہ بھی ہموار ہو گی۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کئی ماہ سے 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے بات چیت کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکے۔

جوہری پروگرام پر بات چیت نہیں ہوئی، آئی ایم ایف نمائندہ

دوسری جانب پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ نے ان قیاس آرائیوں کے بارے میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے تعاون سے چلنے والے پروگرام کے تحت نویں جائزے کے لیے حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں شاید پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کا احاطہ کیا گیا ہو اس میں قطعی طور پر کوئی حقیقت نہیں ہے، جوہری پروگرام پر کسی بھی پاکستانی حکومت کے پروگرام اور فیصلے پر ماضی میں یا موجودہ آئی ایم ایف کے تعاون کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکام کے ساتھ ہماری بات چیت میں معاشی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کی گئی تاکہ پاکستان کی معاشی اور ادائیگیوں کے توازن کے مسائل کو حل کیا جا سکے جو کہ میکرو اکنامک اور مالیاتی استحکام کو فروغ دینے کے لیے آئی ایم ایف کے مینڈیٹ کے مطابق ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں