پاکستان کی برآمدات میں مسلسل ساتویں مہینے کمی، مارچ میں 15 فیصد گر گئیں

04 اپريل 2023
مالی سال 2023 میں جولائی سے مارچ کے درمیان تجارتی خسارہ 35.5 فیصد کمی کے بعد 22 ارب 90 کروڑ ڈالر رہا— فوٹو: وائٹ اسٹار
مالی سال 2023 میں جولائی سے مارچ کے درمیان تجارتی خسارہ 35.5 فیصد کمی کے بعد 22 ارب 90 کروڑ ڈالر رہا— فوٹو: وائٹ اسٹار

پاکستان کی برآمدات میں مسلسل ساتویں مہینے تنزلی ہوئی جو مارچ میں سال بہ سال 14.76 فیصد کم ہو کر 2 ارب 36 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی، جس کی وجہ سے برآمدی شعبے میں ملازمین کی چھانٹی کا خدشہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی ادارہ شماریات (پی بی ایس) کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 23-2022 کے ابتدائی 9 مہینوں (جولائی تا مارچ) میں برآمدات 9.87 فیصد کمی کے بعد 21 ارب 4 کروڑ ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کی اس مدت میں 23 ارب 35 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔

برآمدات میں کمی کی بنیادی وجہ اندرونی و بیرونی عوامل ہیں جس کی وجہ سے خاص طور پر ٹیکسٹائل کے صنعتی یونٹس کی بندش کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔

دوسری طرف، مارچ میں درآمدات بھی 40.25 فیصد کمی کے بعد 3 ارب 82 کروڑ ڈالر رہیں جو گزشتہ برس اسی مہینے میں 6 ارب 40 کروڑ ڈالر تھیں، رواں مالی سال کے ابتدائی 9 مہینوں میں درآمدات 25.34 فیصد گر کر 43 ارب 94 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 58 ارب 85 کروڑ ڈالر تھیں۔

مالی سال 2023 میں جولائی سے مارچ کے درمیان تجارتی خسارہ 35.5 فیصد کمی کے بعد 22 ارب 90 کروڑ ڈالر رہا جو پچھلے سال اسی مدت میں 35 ارب 50 کروڑ ڈالر تھا، مارچ میں سالانہ بنیادوں پر تجارتی خسارہ 59.75 فیصد تنزلی کے بعد ایک ارب 46 کروڑ ڈالر پر آ گیا۔

برآمدات میں منفی نمو رواں مالی سال کے پہلے مہینے جولائی میں شروع ہوئی جبکہ اگست میں معمولی اضافہ دیکھا گیا تھا، برآمدات میں کمی ایک تشویشناک عنصر ہے، جو ملک کے بیرونی کھاتے میں توازن پیدا کرنے میں مسائل پیدا کرے گا۔

ٹیکسٹائل سیکٹر جس کا ملکی برآمدات میں 60 فیصد حصہ ہے، اس میں کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے لیے رواں مالی سال میں برآمدی ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔

پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ خرم مختار نے ڈان کو بتایا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات وفاقی حکومت کی حکمت عملی کے فقدان اور مؤثر طریقے سے ترجیحات نہ دینے کا نتیجہ ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر حکومت چلا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ برآمدات میں تنزلی کی بنیادی وجہ میں سرمائے کی قلت، ریفنڈز کا پھنسنا جیسا کے سیلز ٹیکس، مؤخر سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، مقامی ٹیکسز اور لیویز پر ڈیوٹی ڈرا بیک، ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے کا فنڈ اور ڈیوٹی ڈرا بیک شامل ہے۔

بدقسمتی سے ریفنڈ کا تیز تر نظام ارادے کے مطابق کام نہیں کر رہا ہے، اب ریفنڈز میں 72 گھنٹے کے بجائے 3 سے 5 مہینے لگتے ہیں، برآمد کنندہ نے مزید کہا کہ شعبے کو مالیاتی اور توانائی کی لاگت میں نمایاں اضافے کا بھی سامنا ہے۔

خرم مختار کا مزید کہنا تھا کہ ان مسائل کو حل کیے بغیر ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے خطے کے ممالک سے لاگت کے حوالے سے مسابقت کرنا اور برآمدات کو دوبارہ ٹریک پر لانا ناممکن ہوجائے گا، مزید کہا کہ یہ بات باعث تشویش ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ روزگار دینے والے شعبے کو حکومت کی جانب سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔

پاکستان اپیرل فورم کے چیئرمین جاوید بلوانی نے کہا کہ برآمدکنندگان کے لیے خام مال کی درآمد کے لیے آرڈرز دینا مشکل ہو گیا ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں مشکلات پیدا کر دی ہیں جس کے نتیجے میں برآمدات کم ہو رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتحال کے سبب خریداروں نے آرڈرز روک رکھے ہیں، انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت کو غیر ملکی خریداروں کو واضح پیغام دینا چاہیے کہ ان کے آرڈرز کی ڈیلیوری وقت پر ہوگی۔

جاوید بلوانی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے برآمدکنندگان کے ساتھ طے 4 اجلاس منسوخ کر دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف برآمدات بڑھا کر ہی ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے پیش گوئی کی کہ اپریل میں برآمدات 17 فیصد کم ہوں گی، ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے برآمدی شعبے کے لیے یکم مارچ کو گیس اور بجلی پر سبسڈی کو ختم کر دیا، جس کی وجہ سے پاکستانی برآمدکنندگان غیرمسابقتی ہوگئے۔

تبصرے (0) بند ہیں