الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کے اجرا کے حوالے سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت مذکورہ فنڈز جاری کرنے سے کترا رہی ہے جبکہ وفاقی حکومت عدالت عظمیٰ کے 14 مئی کو انتخابات کرانے کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کے لیے مواقع تلاش کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے منگل کو سربمہر لفافے میں رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جبکہ اس سے ایک روز قبل ہی وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں منی بل پیش کردیا تھا۔

وزیر خزانہ کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 21 ارب روپے جاری کرنے کے لیے پارلیمان کی منظوری کے لیے پیش کیے گئے بل کو انتخابات میں تاخیر کا حربہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ فنڈنگ کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کریں اور فنڈز کی درخواست پر حکومت سے آنے والے جواب کی ایک رپورٹ جمع کرادیں۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اگر فنڈ فراہم نہیں کیے جاتے ہیں یا فنڈز کم جاری کیے جاتے ہیں تو سپریم کورٹ احکامات جاری کرسکتا ہے یا متعلقہ حکام کو ہدایات دے سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے جو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے اس کے جزیات سے معلوم نہیں تاہم ڈان کو ذرائع نے بتایا کہ ایک صفحے پر مشتمل رپورٹ میں عدالت عظمیٰ کو انتخابات کے لیے درکار 21 ارب روپے جاری کرنے کے لیے حکومت کے ہچکچاہٹ سے آگاہ کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کی رپورٹ تین رکنی بینچ کے سامنے جائزے کے لیے ایک یا دو روز میں چیمبر میں پیش کی جائے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے حکومت صرف 75 ہزار سیکیورٹی اہلکار فراہم کرسکتی ہے جبکہ 3 لاکھ اہلکاروں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں نگران حکومت پنجاب اور خاص طور پر چیف سیکریٹری اور پولیس سربراہ کو کہا تھا کہ وہ انتخابی ڈیوٹی اور سیکیورٹی کے لیے الیکشن کمیشن کو درکار اہلکار فراہم کرنے کا منصوبہ دیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حکومت پنجاب اور اس کے عہدیدار اپنے آئینی اور قانونی ذمہ داریوں کے تحت الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کے انعقاد کے لیے بھرپور تعاون فراہم کرنےکے پابند ہیں۔

جہاں تک خیبر پختونخوا کے انتخابات کا تعلق ہے تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی درخواست خراب صفحات کی وجہ سے 10 اپریل کو رجسٹرار سے واپس لی ہے اور کہا گیا تھا کہ درخواست میں مقاصد واضح نہیں ہو رہے تھے۔

ایک ساتھ انتخابات

وفاقی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے کہ جو بظاہر انتخابات کی اکتوبر تک تاخیر کا حربہ ہے جس کا ثبوت پیر کو پارلیمان میں پیش ہونے والا منی بل ہے۔

منی بل کابینہ کے اجلاس میں انتخابات کی مخالفت کے فیصلے کے بعد پیش کیا گیا تھا اور انتخابات کے لیے درکار فنڈز کی منظوری کے لیے پارلیمان کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

مذکورہ سینیٹ میں بھی پیش کیا گیا تھا جبکہ ایوان بالا کا اس حوالے سے کوئی کردار نہیں ہوتا اور صرف تجاویز دے سکتا ہے جس کی قومی اسمبلی بھی پابند نہیں ہے۔

سینیٹ کے چیئرمین نے بھی جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اراکین سے کہا کہ جمعے تک وقت لیں اور تجاویز کے ساتھ آئیں۔

دوسری جانب اراکین اسمبلی نے خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے الگ انتخابات کے بجائے پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کے لیے متعدد قراردادیں منظور کروائیں۔

سینیٹ میں پیر کو ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں مشترکہ انتخابات کی توثیق کی گئی تھی اور خیبرپختونخوا کی نگران کابینہ نے بھی عام انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا تھا۔

بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں بھی ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں معاشی بحران اور ملک میں جاری مردم شماری کا حوالہ دیتے ہوئے انتخابات میں تاخیر کی حمایت کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں