سوڈان میں پاکستانی سفارتخانے کی عمارت فائرنگ کی زد میں آگئی

20 اپريل 2023
سوڈان دو حریف جرنیلوں کے لیے میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
سوڈان دو حریف جرنیلوں کے لیے میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں پاکستانی سفارت خانہ سوڈانی مسلح افواج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان جھڑپوں کے دوران گولیوں کی زد میں آگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سفارتخانے کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹ کے مطابق چانسری عمارت کو تین گولیاں لگیں۔

سفارت خانے نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ یہ ویانا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ میزبان حکومت سفارتی مشنوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔

ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ہم دونوں فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور سوڈان کی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے سفارت خانے کی سلامتی اور حفاظت کے لیے فوری طور پر سیکیورٹی اہلکار تعینات کریں۔

سفارت خانے نے تمام پاکستانیوں کو گھر پر رہنے اور بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے غیر ضروری طور پر باہر جانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔

اس کے بعد کی گئی ایک اور ٹوئٹ میں سفارت خانے نے نوٹ کیا کہ سفارت خانے کی دیوار میں چند گولیاں گھسنے کے بعد سب محفوظ ہیں اور سوڈان میں پاکستانی کمیونٹی کی خدمت کے لیے پرعزم ہیں۔

تاہم اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔

سوڈان کی صورتحال

ڈان اخبار کی ایک اور رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سوڈان دو حریف جرنیلوں کے لیے میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے، لیکن انھیں متضاد مفادات کے ساتھ بین الاقوامی اتحاد کے پیچیدہ جالوں کی پشت پناہی حاصل ہے جو ملک کے مستقبل کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

15 اپریل سے خرطوم میں میزائل، فضائی حملے اور گولیاں چل رہی ہیں کیونکہ آرمی چیف عبدالفتاح البرہان اپنے سابق نائب محمد حمدان ڈگلو کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں، جو طاقتور ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نیم فوجی گروپ کی قیادت کرتے ہیں۔

کشیدگی کے خاتمے کے بین الاقوامی مطالبات کے درمیان بدھ کے روز ہزاروں باشندے سوڈان کے دارالحکومت سے فرار ہو گئے جبکہ 24 گھنٹے کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد فوج اور نیم فوجی دستوں کے درمیان لڑائی پانچویں دن بھی جاری رہی۔

اقوام متحدہ کے مطابق 2021 کی بغاوت کے معماروں اور ایک وقت کے شراکت داروں کے درمیان لڑائی میں تقریباً 200 افراد ہلاک اور 1,800 زخمی ہو چکے ہیں۔

بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ کے ساتھ یہ غریب شمالی افریقی ملک ایک اسٹریٹجک مقام کا حامل ہے اور اسے اپنے قدرتی وسائل کی وجہ سے نمایاں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں