سپریم کورٹ میں وزارت دفاع کی رپورٹ ’دہشت گردی، بھارت کے ساتھ ہر قسم کی جنگ‘ کا انتباہ

20 اپريل 2023
سپریم کورٹ کو سیکیورٹی خدشات سے آگاہ کیا گیا ہے—فائل/فوٹو: ڈان
سپریم کورٹ کو سیکیورٹی خدشات سے آگاہ کیا گیا ہے—فائل/فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ میں وزارت دفاع نے انتخابات کے انعقاد کے دوران خطرات سے متعلق اپنی رپورٹ جمع کرا دی ہے، جس میں سرحد پار سے دہشت گردی، ملک میں عدم استحکام، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے خطرات، مختلف ممالک سے داعش کے جنگجووں کی پاکستان میں واپسی، بھارتی خفیہ ایجنسی را کے مذموم ارادے اور یہاں تک کہ پڑوسی ملک کی جانب سے ہر قسم کی جنگ کے خطرات سے خبردار کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے دیگر صوبوں سے قبل پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد سے دہشت گردی ہوسکتی ہے۔

وزارت دفاع کی رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ پنجاب میں انتخابات سے پاکستان میں مسائل کو جلا ملے گی اور اس سے بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ (را) کی نسلی مسائل، پانی کے تنازعات اور دیگر مسائل سے فائد اٹھانے کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب میں سیاسی طور پر گرم ماحول ملک میں عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے، اسی طرح مختلف سیاسی جماعتوں کی سینئر قیادت کو خاص طور پر پنجاب میں دھمکیاں بھی ملی ہوئی ہے۔

عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اگر دہشت گردی کے خطرات کامیاب ہوگئے تو اس سے افراتفری ہوسکتی ہے اور موجودہ سیاسی ماحول مزید خراب ہوسکتا ہے اور اس سے عدم استحکام ہوگا اور جس طرح سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد جو حالات پیش آئے تھے اسی طرح کی توڑ پھوڑ ہوسکتی ہے۔

وزارت دفاع نے کہا ہے کہ پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں میں پایا جانے والا بدترین سیاسی ماحول اور سیاست میں حالیہ متعارف کروائے گئے تشدد کے عنصر سے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کے خدشات میں اضافہ ہو چکا ہے جو امن و امان خراب کرنے کا باعث بنے گا اور اس سے دہشت گردوں کو مدد مل سکتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حالیہ چند برسوں کے دوران سیکیورٹی کی صورت حال کی وجہ سے ملک کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر مسلح افواج کے اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات کردی گئی ہے۔

اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کی موجودگی کے باوجود بھارت لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بین الاقوامی سرحدوں کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے بدستور پاکستان کی جوابی صلاحیت کو چیلنج کر رہا ہے۔

اسی طرح پاک-افغان سرحد پر بھی کالعدم ٹی ٹی پی مسلسل دراندازی کر رہی ہے اور افغانستان کے نگران عناصر کے ساتھ کئی مرتبہ فائرنگ کا تبادلہ ہو چکا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس جنوری سے اب تک سرحد میں 72 واقعات ہوئے ہیں، جن میں پاک فوج کے کئی اہلکار شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔

وزارت دفاع نے بتایا ہے کہ بلوچستان میں انتہا پسند تنظیمیں سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہی ہیں اور ان کی سرحد پار آمد ورفت ہے، جو پڑوسی ملک کی سرزمین استعمال کر رہی ہیں، پاک-ایران سرحد پر بھی مسلسل چیلنجز ہیں، جنوری سے اب تک سرحد پار سے ہونے والے 8 واقعات میں 9 اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔

رپورٹ میں پنجاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبے میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر آئی تھی، جنوری 2022 سے اپریل 2023 تک 150 دھمکیاں ملیں، ان میں سے 78 دھمکیوں کا تدارک انسداد دہشت گردی یا خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کارروائیوں کے ذریعے کیا گیا لیکن 8 واقعات رونما ہوگئے۔

سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ دہشت گرد عناصر پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب اور اسلام آباد میں بھی خفیہ طور پر سرگرم ہیں اور بدترین حملے اس کی مثال ہیں۔

سیکیورٹی صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ داعش سے منسلک کئی انتہا پسند گروپس اور دیگر تنظیمیں شام، یمن اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سے پاکستان میں واپس آرہی ہیں۔

رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان مسلسل ’عالمی گریٹ گیم‘ کا نشانہ بنے گا جہاں بھارت بھی موجود ہے۔

وزارت دفاع نے کہا ہے کہ پاکستان کو نہ صرف بیرونی خطرات کا سامنا ہے بلکہ اندرونی طور پر عدم استحکام کا بھی سامنا ہے اور دونوں کا آپس میں تعلق ہے کیونکہ اندرونی خلفشار ہی بیرونی جارحیت کو دعوت دیتا ہے۔

عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت اسٹریٹجک جبر جاری رکھے ہوئے ہیں، جس میں پاکستان کے اندر دہشت گردی بھی شامل ہے اور ہر قسم کی جنگ کے لیےکسی بھی محدود فوجی آپریشن پر آپریشنل سطح پر موقعے کا فائدہ اٹھاتا ہے۔

مزید آگاہ کیا گیا ہے کہ 2018 اور 2021 کے مقابلے میں دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ افغانستان میں ماحول اگست 2021 کے بعد خراب ہوچکا ہے، امریکی فورسز کے انخلا کے بعد 1500 دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کردیا گیا ہے اور ٹی ٹی پی کے پاس جدید ہتھیار موجود ہیں، جس میں خطرات مزید بدترین ہوجاتے ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان نے 22-2021 میں دہشت گردی میں کمی کے لیے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے تھے لیکن یہ حکمت عملی ناکام ہوئی اور اس کے بعد خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں منظم ہو رہی تھی جو پاکستان کے لیے خطرہ بن گیا اور افغانستان دہشت گرد گروپس کے لیے جگہ فراہم کر تا رہا ہے۔

وزارت دفاع کی رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ چین، پاکستان، ایران اور افغانستان کے درمیان دہشت گردی کے انسداد کے لیے ہونے والی حالیہ اتفاق رائے سے اگلے 6 سے 8 ماہ کے دوران بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں