پاکستان اسٹیل مل نے اپنی اراضی کی قیمت کیلئے سوئی سدرن کا تخمینہ مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 25 اپريل 2023
بورڈ نے سوئی سدرن گیس کمپنی سے کہا کہ وہ اپنی قانونی چارہ جوئی کو واپس لے—فائل فوٹو: رائٹرز
بورڈ نے سوئی سدرن گیس کمپنی سے کہا کہ وہ اپنی قانونی چارہ جوئی کو واپس لے—فائل فوٹو: رائٹرز

قانونی مسائل کے حل میں تاخیر کے پیش نظر پاکستان اسٹیل ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ کی جانب سے اپنی اراضی کی قیمت کا یکطرفہ تخمینہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اسٹیل مل نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو گزشتہ ہفتے لکھے گئے خط میں کہا کہ ’بورڈ نے 29 مارچ اور 7 اپریل کو منعقدہ اجلاسوں میں پاکستان اسٹیل مل کے انتظامی اثاثوں کو اسٹیل کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ کو دینے اور قانونی چارہ جوئی سے دستبرداری کے لیے این او سی کے اجرا میں تاخیر پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے‘۔

بورڈ نے سوئی سدرن گیس کمپنی سے کہا کہ وہ اپنی قانونی چارہ جوئی کو واپس لے اور پاکستان اسٹیل مل کے اثاثے اسٹیل کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ کو فوری طور پر منتقل کرنے کے لیے مطلوبہ این او سی جاری کرے تاکہ پاکستان اسٹیل مل کی بحالی اور نجکاری کے عمل میں مزید تاخیر سے بچا جاسکے۔

تاہم بورڈ نے متنبہ کیا کہ ’یہ معاملہ 2 سال سے چل رہا ہے اور پاکستان اسٹیل مل نے سوئی سدرن گیس کمپنی کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے نیک نیتی سے کام کیا ہے، لہٰذا مزید کوئی تاخیر پاکستان اسٹیل مل کو اپنے مؤقف، اختیارات اور ان شرائط پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دے گی جنہیں اس معاملے کے حل کے لیے پیش کیا گیا‘۔

اس پیشرفت سے تقریباً 2 ہفتے قبل سوئی سدرن گیس کمپنی نے پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ سے ملوں کی بقایا واجبات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک حتمی اجلاس کا مطالبہ کیا، سوئی سدرن گیس کمپنی کی انتظامیہ نے ان واجبات کا تخمینہ 31 دسمبر 2022 تک 48 ارب روپے لگایا۔

اختلافات اُس وقت سامنے آئے جب سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ نے پاکستان اسٹیل مل کی ایک ہزار 400 ایکڑ اراضی کی قیمت کا انتہائی کم تخمینہ اپنی مرضی کے تشخیص کنندہ کے ذریعے کرایا جبکہ اس قیمت پاکستان اسٹیل مل اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے مشترکہ طور پر مقرر کردہ ایک آزاد تشخیص کنندہ کے ذریعے اس سے کہیں زیادہ لگوائی گئی تھی۔

سوئی سدرن گیس کمپنی نے پاکستان اسٹیل مل کے لیے شرائط طے کیں اور پاکستان اسٹیل مل کے فیکٹری ایریا (تقریباً ایک ہزار 230 ایکڑ) اور مل کی نجکاری کے لیے درکار مشینری کے لیے اجرا کو روک دیا۔

پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری کا عمل 19-2018 میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے شروع کیا گیا تھا اور اسے موجودہ حکومت نے جاری رکھا، جبکہ یہ اقدام مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے کسی منظوری، حکومت سندھ سے این او سی اور پاکستان اسٹیل مل میں 12 فیصد شیئر ہولڈنگ رکھنے والے ملازمین کو اعتماد میں لیے بغیر کیا گیا۔

تازہ ترین خط و کتابت میں پاکستان اسٹیل مل نے کہا ہے کہ کابینہ کمیٹی برائے نجکاری اور وفاقی کابینہ نے اگست 2012 میں فیصلہ کیا تھا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی قانونی چارہ جوئی واپس لے لے گی اور پاکستان اسٹیل مل کو اس کے اثاثوں کی منتقلی کے لیے این او سی جاری کرے گی۔

ملز بورڈ نے افسوس کا اظہار کیا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے 2 بار ایل او سی جاری کرنے اور سوئی سدرن گیس کپنی کے مطالبے کے مطابق ترمیم شدہ ایل او سی کے باوجود گیس کمپنی نے نہ تو حکم امتناع ختم کیا اور نہ ہی مطلوبہ این او سی جاری کیا۔

بعد ازاں وفاقی سطح پر ہونے والے مختلف اجلاسوں میں سوئی سدرن گیس کمپنی سے اثاثوں (پاکستان اسٹیل مل کی مشینیں اور آلات وغیرہ) اور متعلقہ ایک ہزار 230 ایکڑ اراضی پر عائد چارج کو خارج کر کے ریکوری سوٹ میں ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

سوئی سدرن گیس کمپنی نے اس کے بجائے جون 2022 میں پاکستان اسٹیل مل کی زمین لیز کی بنیاد پر حاصل کرنے کی پیشکش کی، اس کے بعد سے وقت کے ساتھ ساتھ سوئی سدرن گیس کمپنی کے مطالبات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور یہ تبدیل بھی ہوتے رہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل مل بورڈ نے 30 سال کے لیے زمین کو سوئی سدرن گیس کمپنی کو لیز پر دینے کی اجازت دی تاکہ پاکستان اسٹیل مل انتظامیہ کی جانب سے آزادانہ تشخیص کے بعد سوئی سدرن گیس کمپنی کو 23 ارب روپے کی اصل قابل ادائیگی رقم کو ایڈجسٹ کیا جاسکے۔

اس لیز کی اجازت اس شرط کے ساتھ بھی دی گئی کہ مذکورہ زمین صرف سوئی سدرن گیس کمپنی کے ذریعے ایل این جی ٹرمینلز اور صنعتی سہولیات کے قیام کے لیے استعمال کی جائے گی جس کے بدلے سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے پاکستان اسٹیل مل کے بنیادی اثاثوں کے لیے فوری طور پر این او سی فراہم کیا جائے گا۔

سوئی سدرن گیس کمپنی کے مطالبے پر پاکستان اسٹیل مل نے ایل این جی ٹرمینل کے لیے اپنی شرائط واپس لے لیں اور صنعت کاری کے لیے زمین کے استعمال کی اجازت دے دی۔

متعلقہ وفاقی وزارتوں سمیت اسٹیک ہولڈرز کے مختلف اجلاسوں کے بعد پیٹرولیم ڈویژن نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو ہدایت دی کہ وہ اراضی کے معاملے کو حتمی شکل دے، سندھ ہائی کورٹ میں اپنے مقدمے میں ترمیم کرے تاکہ مشینوں کے ساتھ ایک ہزار 230 ایکڑ زمین کو قانونی چارہ جوئی سے مستثنیٰ کیا جاسکے اور 20 روز کے اندر این او سی جاری کرے۔

نتیجتاً دونوں کمپنیوں (سوئی سدرن گیس کمپنی اور پاکستان اسٹیل مل) نے مشترکہ طور پر سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے تجویز کردہ اراضی کی قیمت کا جائزہ لینے والی ایک تھرڈ پارٹی ’کے جی ٹریڈرز‘ کو مقرر کیا جس نے مذکورہ ایک ہزار 400 ایکڑ کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 55 ارب روپے لگائی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں