حکومت سے جاری مذاکرات کے کامیاب نتائج کی راہ ہموار کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی 14 مئی تک تحلیل کرنے کے مطالبے کے بعد حکومتی اتحاد نے ان کے الٹی میٹم کو ’ناقابل عمل‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے مزید لچکدار بنیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان منگل کو ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور سے قبل مسلم لیگ (ن) نے خبردار کیا ہے کہ اگر مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے تو عمران خان کی پارٹی ’ناکام ہوگی‘ کیونکہ اس کے نتیجے میں آئینی شق کے تحت انتخابات کو ایک سال کے لیے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔

ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے 14 مئی تک قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے عمران خان کے مطالبے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل اور وفاقی وزیر برائے ترقی احسن اقبال نے کہا کہ ہم عمران خان کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ بندوق کی نوک پر مذاکرات نہیں کر سکتے، مذاکرات کی پہلی شرط یہ ہے کہ کوئی پیشگی شرائط عائد نہ کی جائیں، عمران خان اتنے بے چین ہیں کہ وہ اپنا من پسند راستہ یا ہائی وے چاہتے ہیں۔

اتوار کو ڈان کے ساتھ بات چیت میں احسن اقبال نے کہا کہ وفاقی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی کے ساتھ ’کھلے دماغ‘ کے ساتھ بیٹھیں، تاہم اگر عمران خان 14 مئی تک اسمبلیوں (قومی، سندھ اور بلوچستان) کی تحلیل کے اپنے مطالبے پر ڈٹے رہے تو یہ حکمران اتحاد کو قابل قبول نہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان کی حماقت کی سزا سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو نہیں دی جا سکتی، جس نے اداروں میں اپنے ’ہینڈلرز‘ کی سرپرستی میں انتخابات کرانے کے لیے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کیں، پی ٹی آئی کو ایک ہی دن کے انتخابات کے علاوہ انتخابات کے لیے ضابطۂ اخلاق پر بھی اتفاق کرنا پڑے گا۔

’اصل ناکام‘

احسن اقبال نے مزید کہا کہ اور میں بتاتا چلوں، اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو حتمی شکست پی ٹی آئی کو ہوگی کیونکہ آئین کے تحت انتخابات ایک سال تک مؤخر کرنے کی سہولت موجود ہے، عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر انتخابات جولائی میں نہیں ہوئے تو ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا ہو جائے گی اور ایسی صورت میں انتخابات مزید ایک سال کے لیے مؤخر ہو جائیں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں مئی میں پنجاب میں انتخابات کرائے جائیں گے تو وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے پیچھے سیاست نظر آتی ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کو بھی مذاکرات کا کوئی ’مثبت نتیجہ‘ برآمد ہوتا نظر نہیں آرہا اور انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا کیونکہ وہ شرائط عائد کر رہے ہیں۔

تاہم پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) پر زور ڈالنے والی پیپلز پارٹی اب بھی بات چیت کے حوالے سے پُرامید ہے، پی پی پی کے سینئر رہنما اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی قمر زمان کائرہ نے ڈان کو بتایا کہ مجھے امید ہے کہ 14 مئی تک اسمبلیوں کی تحلیل عمران خان کی جانب سے ایک شرط کے بجائے تجویز ہے البتہ یہ تجویز قابل عمل نہیں، مئی میں قومی اسمبلی تحلیل ہوگئی تو بجٹ کون پیش کرے گا؟ آئی ایم ایف کے ساتھ گفت و شنید اور آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ کو نگران سیٹ اَپ پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اس طرح کے مشورے کے باوجود پی پی پی کا خیال ہے کہ اکثریتی فیصلہ غالب ہو گا اور یہ مذاکرات ناکامی پر ختم نہیں ہوں گے۔

انتخابات کے حوالے سے متفقہ فیصلے کے لیے حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان سے ملاقات کرنے والے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ ہم مذاکرات میں پیش رفت کے لیے پُرامید ہیں کہ وفاقی اتحاد اور پی ٹی آئی دونوں ہی ڈیڈلاک کی طرف نہیں جائیں گے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ اس کے حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوں گے۔

تحریک انصاف کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ پی ٹی آئی، حکومت سے مذاکرات کی کامیابی چاہتی ہے لیکن ناکامی کی صورت میں ہم نے حکمت عملی بنائی ہوئی ہے، اگر آئین کو ردی کا ٹکڑا اور عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھا جائے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ پی ٹی آئی خاموش بیٹھ جائے۔

فواد چوہدری نے لوگوں سے ’تحریک‘ کے لیے تیار رہنے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تحریک کا آغاز پیر سے لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں ریلیوں سے ہو رہا ہے جس کا اختتام ایک تاریخی لانگ مارچ پر ہو گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں