9 مئی کی ہنگامہ آرائی سے متعلق مقدمات کی تفتیش کے لیے 10 جے آئی ٹیز تشکیل

جے آئی ٹیز کو مختلف تھانوں میں درج مقدمات کی تحقیقات اور حتمی شکل دینے کا کام سونپا گیا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
جے آئی ٹیز کو مختلف تھانوں میں درج مقدمات کی تحقیقات اور حتمی شکل دینے کا کام سونپا گیا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

ایسے میں کہ جب سینئر ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران پر مشتمل تین رکنی ٹیم عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ کی تلاشی کے لیے پارٹی قیادت کے ساتھ ’متفقہ ایس او پیز‘ تک پہنچنے میں ناکام رہی نگراں حکومت پنجاب نے وہاں چھپے مبینہ آتش زنی کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے لیے ’اپنے طریقے‘ وضع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور ڈویژن کے کمشنر محمد علی رندھاوا کی سربراہی میں ایس ایس پی (آپریشنز) صہیب اشرف اور لاہور کی ڈپٹی کمشنر رافعہ حیدر پر مشتمل ٹیم کے عمران خان کی رہائش گاہ کے دورے سے قبل متضاد اطلاعات سامنے آئیں کہ پولیس سرچ آپریشن شروع کرنے جا رہی ہے یا صرف سابق وزیراعظم سے مذاکرات کے لیے ان کی رہائش گاہ کا دورہ کیا۔

یہ الجھن اس وقت مزید گہری ہو گئی جب سرکاری ٹیم کو عمران خان کی رہائش گاہ تک لے جانے کے لیے تقریباً 400 پولیس اہلکاروں کو الرٹ کر دیا گیا۔

بعد میں پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات عامر میر نے وضاحت کی کہ ٹیم نے ابھی سرچ آپریشن کے ایس او پیز وضع کرنے کے لیے عمران خان کی رہائش گاہ کا دورہ کیا تھا۔

انہوں نے ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے دورہ کرنے والی ٹیم اور پی ٹی آئی چیئرمین کے درمیان ڈیڈ لاک کے بارے میں بتایا کہ دونوں فریق اس سلسلے میں کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچ سکے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی ٹیم نے پی ٹی آئی کے تقریباً 2,200 مبینہ شرپسندوں کی فہرست حوالے کی ہے جو لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس سمیت فوجی تنصیبات پر حملے کرنے کے لیے پنجاب پولیس کو مطلوب ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما بشمول اعظم سواتی، شاہ محمود قریشی، حسن نیازی، زبیر نیازی، حماد اظہر، فواد چوہدری اور اسد عمر بھی ان میں شامل ہیں۔

عامر میر نے کہا کہ ٹیم نے عمران خان کو ’ناقابل تردید شواہد‘ فراہم کیے، جن میں ان لوگوں کے جیو فینسنگ اور کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) شامل ہیں جن کی موجودگی کا ان کی زمان پارک میں رہائش گاہ پر پتا چلا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کو دورہ کرنے والی ٹیم نے بتایا کہ 9 مئی کے تشدد کے مقدمات میں گرفتار ہونے والے کچھ ملزمان نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے گوجرانوالہ کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کی منصوبہ بندی بھی کی تھی۔

چونکہ ڈیڈ لاک برقرار ہے اور عمران خان کی رہائش گاہ کی تلاشی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا، نگراں وزیر داخلہ نے کہا، پنجاب حکومت اس سلسلے میں اپنے ’طریقے‘ وضع کرے گی۔

پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے حکومتی ٹیم کے ان کی رہائش گاہ کی تلاشی کے مجوزہ منصوبے پر اعتراض اٹھایا جہاں کچھ خواتین بھی رہتی ہیں، تاہم انہوں نے اپنی رہائش گاہ کے باہر احتجاجی کیمپ، ٹینٹ اور اسپیڈ بریکر سمیت تجاوزات ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی۔

10 جے آئی ٹیز تشکیل

اس سے پہلے دن میں، پنجاب حکومت نے 9 مئی کو لاہور میں ہونے والے تشدد کے بعد آتش زنی کرنے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی اور دیگر سنگین الزامات کے تحت درج مقدمات کی الگ الگ تحقیقات کے لیے 10 مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں (جے آئی ٹی) تشکیل دیں۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے آئی جی ڈاکٹر عثمان انور کی سفارشات پر بنائی گئی جے آئی ٹی کے نوٹیفکیشن جاری کر دیے۔

جے آئی ٹیز کو ریسکورس، سرور روڈ، گلبرگ، ماڈل ٹاؤن، شادمان اور نصیر آباد سمیت شہر کے مختلف تھانوں میں درج مقدمات کی تحقیقات اور حتمی شکل دینے کا کام سونپا گیا ہے۔

کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے ہائی پروفائل کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی قیادت ڈی آئی جی (انوسٹی گیشن) لاہور کامران عادل کریں گے، اس کے دیگر ارکان میں لاہور کے ایس ایس پی (انوسٹی گیشن) صہیب اشرف، ڈی ایس پی رضا زاہد، اے ایس پی تیمور خان اور انسپکٹر محمد سرور شامل ہیں۔

اسی طرح لاہور کے ایس ایس پی (انوسٹی گیشن) ڈاکٹر انوش مسعود چوہدری گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن پولیس ڈویژن کے دیگر علاقوں میں درج مقدمات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی 5 جے آئی ٹیز کی سربراہی کریں گے جہاں عسکری ٹاور پر حملے سمیت اشتعالانگیزی کے بڑے واقعات ہوئے۔

لاہور کینٹ ڈویژن کے ایس پی (انوسٹی گیشن) ارسلان زاہد مقامی تھانوں میں درج دو مقدمات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی قیادت کریں گے، جب کہ سول لائنز ڈویژن کے ایس پی 9 مئی کے حملے/ واقعات کے سلسلے میں ریس کورس اور دیگر تھانوں میں درج مقدمات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کی قیادت کریں گے۔

پولیس کا 6 شرپسند گرفتار کرنے کا دعویٰ

قبل ازیں لاہور پولیس نے زمان پارک سے مزید چھ مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا جب وہ عمران خان کی رہائش گاہ سے فرار ہو رہے تھے۔

لاہور کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر بلال صدیق کامیانہ نے بتایا کہ پولیس نے انہیں 9 مئی کو شہر کے مختلف تھانوں میں درج تشدد کے مقدمات کے سلسلے میں گرفتار کیا۔

ان میں سے چار عسکری ٹاور اور دو لاہور کور کمانڈر ہاؤس پر حملوں میں ملوث تھے،پولیس نے کہا کہ اب تک 14 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

عمران خان کی رہائش گاہ کی نگرانی میں اضافہ

کیپٹل پولیس نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی بنی گالہ رہائش گاہ کے اندر اور ارد گرد نگرانی بڑھا دی ہے تاکہ وہاں مقیم ’افراد‘ کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔

ایک پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ دارالحکومت پولیس کا ایک دستہ جمعرات کو بنی گالہ بھیجا گیا تھا تاکہ وہاں رہنے والے لوگوں کی صورتحال اور سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔

افسر نے کہاکہ چند پولیس اہلکار بھی گھر کے مرکزی دروازے کے قریب گئے لیکن کسی سے بات نہیں کی۔

بعد ازاں پولیس کے دستے نے گھر کے آس پاس کے علاقوں اور اس کی طرف جانے والی سڑکوں پر لوگوں اور سرگرمیوں کی موجودگی کا مشاہدہ کیا اور چیک کیا، انہوں نے مزید کہا کہ دوروں کے نتائج سینئر کمانڈ کے ساتھ شیئر کیے گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں