ریویو ایکٹ کے خلاف کیس مضبوط نہ ہوا تو لائحہ عمل طے کریں گے، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 13 جون 2023
نظرِثانی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
نظرِثانی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرِثانی درخواست اور ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ریویو ایکٹ کے خلاف کیس مضبوط نہ ہوا تو آئندہ لائحہ عمل طے کریں گے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر نظرِثانی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ روسٹرم پر آگئے اور عدالت سے مخاطب ہوکر کہا کہ عدالت سے گزارش ہے کہ میری درخواست بھی سن لے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت پہلے نظر ثانی قانون پر دلائل سنے گی، ہم نے دونوں کیس ایک ساتھ مقرر کیے تھے، اگر قانون کے خلاف کیس مضبوط نہ ہوا توآئندہ لائحہ عمل طے کریں گے، اس پر ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ نے کہا کہ نظر ثانی قانون کے خلاف درخواستوں پر فیصلے تک ہماری درخواستیں زیر التوا رکھی جائیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ شاید یہ توقع کر رہے ہیں کہ ہم اس قانون پر بھی حکم امتناع دیں، ایک کے بعد ایک کیس میں قانون پر حکم امتناع تو ممکن نہیں، درخواست گزار زمان وردگ نے کہا کہ ری ویو ایکٹ میں بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر والے ہیں، ری ویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ پر بھی حکم امتناع دیا جائے، ریویو اینڈ ججمنٹ آرڈر قانون کو معطل کر کے 8 رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بار بار قانون کو معطل نہیں کر سکتے، ہم نے پہلے ایک قانون کو معطل کیا دوسرے کو معطل نہیں کرسکتے۔

درخواست گزار نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر اور ریویو اینڈ ججمنٹ آرڈر کی شقوں میں مماثلت ہے، اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کس اصول کے تحت ریویو اینڈ ججمنٹ آرڈر کو معطل کریں۔

درخواست گزار نے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ آرڈر آئین کے آرٹیکل 10 سے متصادم ہے، اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر ایک قانون آئینی شقوں سے متصادم ہے تو ہرگز یہ قرار نہیں دیا سکتا کہ دوسرا قانون بھی خلاف قانون ہے، 2 قوانین میں مطابقت ہونا بالکل الگ بات ہے، قوانین میں مطابقت ہونا خلاف ورزی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں پھر دونوں قوانین میں کیا یکساں ہے؟ درخواست گزار نے کہا کہ ریویو ایکٹ آرٹیکل 10 اے کے خلاف ہے، ریویو عدلیہ کی آزادی میں بھی مداخلت ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اور ریویو ایکٹ کا مقصد ایک ہی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ دونوں قوانین الگ الگ دائرہ اختیار سے متعلق ہیں، اس پر درخواست گزار نے کہا کہ محض قانون سازی سے سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دینا خلاف آئین ہے۔

دریں اثنا عدالت نے پی ٹی آئی کی جانب سے ریویو ایکٹ کیس میں فریق بننے کی درخوست منظور کرلی، دوران سماعت بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آگئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے یہ درخواستیں کس کی جانب سے دائر کیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ درخواست پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب نے دائر کی ہے، سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ فیصلوں پر نظر ثانی کرسکتی ہے، آرٹیکل 188 میں ریویو کا ذکر ہے، ری ویو کا کیا مطلب ہوتا ہے یہ واضح ہے، اس ضمن میں 1956 کے آئین میں بھی وہی لینگویج استعمال ہوئی جو 1973کے آئین میں ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حتمی ہونے کا ایک تصور موجود ہے، نظرثانی میں شواہد دوبارہ نہیں دیکھے جاتے، نظرثانی کا دائرہ اختیار اپیل جیسا نہیں ہوسکتا، نظرثانی صرف اس لیے ہوتی ہےکہ سابقہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہو، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم جیسے ججز اس پر فیصلے دے چکے ہیں، یہ سب ہیوی ویٹ ججز تھے جو بہت کلیئر تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 188 ایکٹ آف پارلیمنٹ کی بھی بات کرتا ہے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نظر ثانی اور اپیل 2 الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، آئین سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف اپیل کا نہیں کہتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نظر ثانی کا اسکوپ اپیل جیسا ہو گا، بیرسٹر علی ظفر نے آرٹیکل 175 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 175 میں عدالتوں سے متعلق وضاحت موجود ہے، آرٹیکل 142 قانون سازی کو آئین سے مشروط کرتا ہے، کسی معاملے پر مجلس شوریٰ آئین کے مطابق قانون سازی کر سکتی ہے، کوئی بھی قانون بنیادی آئین کی خلاف ورزی میں نہیں بنایا جاسکتا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 188 کو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے مشروط کیا گیا، کیا ایکٹ کے ذریعے نظرثانی کی محض نوعیت نہیں بدلی گئی؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نئے ایکٹ سے نظر ثانی کو اپیل جیسا اختیار دیا گیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار دیا کہ کل فُل کورٹ رولز بدل دے تو کیا ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ رولز کو بھی آئین پر فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپیل اور نظر ثانی میں بہت فرق ہے، اب ایکٹ سے اپیل اور نظر ثانی کو یکساں کردیا گیا ہے، کیا اب اس اپیل کے خلاف بھی نظر ثانی میں جانے کا آپشن ہوگا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو یہی مطمئن کرنا ہوگا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایسے ہی قوانین بنتے رہے تو کیا پتا کل سیکنڈ اپیل کا قانون آجائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بھارت میں اِن چیمبر کیوریٹو لگایا گیا ہے، بھارت میں یہ ریویو 2 گراؤنڈز پر ہوتا ہے، ہمارے یہاں ریویو ایکٹ میں آرٹیکل 187 بھی شامل ہوتا تو اچھا نہیں تھا، آپ کو نہیں لگتا یہ معاملات جلد بازی کے بجائے تحمل سے دیکھے جائیں۔

دریں اثنا سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی، ری ویو ایکٹ کے خلاف وکلا کے دلائل کل بھی جاری رہیں گے۔

یاد رہے کہ 7 جون کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرِثانی درخواست اور ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر ایک ساتھ سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔

سپریم کورٹ (ری ویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر) ایکٹ

گزشتہ ماہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد سپریم کورٹ ری ویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 2023 قانون بن چکا ہے، جس کے بعد آرٹیکل 184/3کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق ہوگا۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی نے 26 مئی کو مذکورہ بل پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ قانون کی حیثیت اختیار کرگیا۔

مذکورہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد 5 مئی کو سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا تھا۔

اس نئے قانون کے تحت آرٹیکل 184/3کے تحت کیے گئے فیصلوں پر 60 دن میں نظر ثانی اپیلیں داخل کی جاسکیں گی اور فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ اپیل کی سماعت کرے گا۔

انتخابات التوا کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔

مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔

جس پر 4 اپریل کو سماعت کرتے ہوئے عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے آگے نہیں جاسکتا، الیکشن کمیشن کے غیر قانونی فیصلے سے 13 دن ضائع ہوئے، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، 30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان صوبائی انتخابات کرائے جائیں، تاہم ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ملک بھر میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کے معاملے پر حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کو آپس میں مذاکرات کرنے کی بھی ہدایت کی تھی، تاہم وہ مذاکرات کسی حتمی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں