بائپر جوائے کراچی سے مزید قریب، شہر میں تیز ہوائیں چل پڑیں، انخلا جاری

یہ متحرک عکس بائپرجوائے سائیکلون کی رات 10 بجکر 15 منٹ کی صورت حال کو ظاہر کررہا ہے۔
یہ متحرک عکس بائپرجوائے سائیکلون کی رات 10 بجکر 15 منٹ کی صورت حال کو ظاہر کررہا ہے۔

بحیرہ عرب میں موجود سمندری طوفان ’بائپر جوائے‘ اب کراچی سے 470 کلو میٹر دور موجود ہے، شہر قائد میں تیز اور گرد آلود ہوائیں چل رہی ہیں جبکہ آج سے ساحلی علاقوں میں بارشوں کی توقع ہے، جہاں سے لوگوں کے انخلا کا عمل بھی جاری ہے۔

محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری تازہ ایڈوائزری کے مطابق یہ طوفان کراچی سے 470 کلومیٹر دور، ٹھٹہ سے 460کلومیٹر اور اورماڑہ سے 570 کلومیٹر دور موجود ہے۔

ریڈیو پاکستان‘ کے مطابق این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان بائپر جوائے کمزور ہو کر کیٹیگری 3 کے ’انتہائی شدید سمندری طوفان‘ میں تبدیل ہو گیا ہے، طوفان کی سطح پر ہوا چلنے کی رفتار تقریباً 140 سے 150 کلومیٹر فی گھنٹہ جبکہ اس کے مرکز کے گرد یہ رفتار 170 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے۔

محکمہ موسمیات نے مزید بتایا کہ بائپر جوائے کل صبح تک مزید شمال کی جانب بڑھے گا جس کے بعد اس کا رخ شمال مشرق کی جانب ہوجائے گا، 15 جون کی سہہ پہر طوفان سندھ کے علاقے کیٹی بندر اور بھارتی گجرات سے ٹکرائے گا۔


اہم پیش رفت:

  • حالیہ الرٹ کے مطابق 15 جون کی سہہ پہر طوفان سندھ کے علاقے کیٹی بندر اور بھارتی گجرات سے ٹکرائے گا۔
  • شیری رحمٰن نے بتایا کہ کراچی میں 113 ملی میٹر بارشیں ہو سکتی ہیں، انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ ’بغیر خوف‘ کے حکام کی ایڈوائرزی پر عمل کریں۔
  • چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے کہا ہے کہ سمندری طوفان کے پیش نظر تقریباً ایک لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جانا ہے۔
  • بھارت میں 4 افراد ہلاک، لوگوں کا انخلا جاری

محکمہ موسمیات نے متنبہ کیا کہ سندھ کے جنوب مشرقی ساحل پر طوفان کے اثرات بڑے پیمانے پر مرتب ہوں گے، تیز ہوائیں کچے اور بوسیدہ گھروں بشمول سولر پینلز کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، 8 سے 12 فٹ اونچی لہروں کے باعث کیٹی بندر اور اطراف میں واقع نشیبی بستیاں ڈوب سکتی ہیں۔

محکمہ موسمیات کے الرٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹھٹھہ، سجاول، بدین، تھرپارکر، میرپورخاص اور عمرکوٹ میں 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 80-100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی تیز ہواؤں کے ساتھ وسیع پیمانے پر آندھی، دھول اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔

الرٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہیار، شہید بینظیر آباد اور سانگھڑ کے اضلاع میں 14 سے 16 جون تک چند موسلا دھار بارشوں اور اس کے ساتھ گرد آلود ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔

الرٹ میں کہا گیا ہے کہ لینڈ فال، کیٹی بندر کے مقام پر 3-3.5 میٹر اونچی طوفانی لہر متوقع ہے جس سے نشیبی بستیوں کے ڈوب جانے کا امکان ہے۔ سینٹر نے ماہی گیروں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ کھلے سمندر میں اس وقت تک نہ نکلیں جب تک کہ یہ نظام 17 جون تک ختم نہیں ہو جاتا۔

شام کے وقت وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا کہ حیدرآباد کراچی ہائی وے پر گردو غبار کا طوفان شروع ہوگیا ہے اور انہوں نے عوام سے محفوظ رہنے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ طوفان شمال مشرق کی طرف بڑھ رہا ہے اور اب بھی کیٹی بندر اور سر کریک کے علاقے سے ٹکرانے کے راستے پر ہے۔

سائیکلون میں شدت

دریں اثنا نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے کہا کہ ’بائپر جوائے‘ کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سائنسی رپورٹس کے مطابق، طوفان کا رخ کیٹی بندر اور بھارتی گجرات کی طرف ہو جائے گا، اس وجہ سے تمام خطرناک علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ15 جون کو یہ کیٹی بندر اور ملحقہ علاقوں سے ٹکرائے گا، اس کی چوڑائی کی وجہ سے ساحلی پٹی کے ساتھ دور دراز کے علاقے متاثر ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں بھی گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے، اس کے لیے ہم نے تمام حکام کو الرٹ کر دیا ہے اور کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیاریاں کر لی گئی ہیں۔

وزیر اعظم کی عوام کے تحفظ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت

وزیر اعظم شہباز شریف نے سندھ کی صوبائی حکومت، این ڈی ایم اے اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ وہ طوفان سے لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔

وزیر اعظم نے طوفان کے ممکنہ اثرات سے قبل تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سندھ حکومت، این ڈی ایم اے اور دیگر اداروں سے کہا کہ وہ ساحلی علاقوں میں موبائل اسپتالوں کے قیام کو یقینی بنائیں اور وہاں مناسب ہنگامی طبی امداد فراہم کریں۔

انہوں نے کہا کہ طوفان کے پیش نظر بے گھر افراد کے کیمپوں میں پینے کے صاف پانی اور خوراک کا خصوصی انتظام کیا جائے۔

وزیر اعظم نے وزیر توانائی خرم دستگیر کو ہدایت کی کہ وہ طوفان کے اثرات ختم ہونے تک سندھ کے اضلاع میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں اور ساحلی علاقوں میں 24 گھنٹے بجلی کی ترسیل کے نظام کی نگرانی کریں۔

وزیر اعظم شہباز نے کہا کہ طوفان کے بعد بجلی کی ترسیل کے نظام کو ہونے والے ممکنہ نقصان کو فوری طور پر ٹھیک کیا جائے۔

انہوں نے طوفان کے پیش نظر پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کی۔

وفاقی وزیر شیری رحمٰن کی سربراہی میں قائم ہونے والی کمیٹی میں وزیر توانائی، فوڈ سیکیورٹی کے وزیر طارق بشیر چیمہ، این ڈی ایم اے کے چیئرمین، سندھ اور بلوچستان حکومتوں کے نمائندے، محکمہ موسمیات اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ شامل ہوں گے۔

وزیراعظم نے طوفان سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے اور عوام کو کسی بھی ممکنہ ہنگامی صورتحال سے آگاہ رکھنے کے لیے کمیٹی کو مسلسل مشاورت کی ہدایت کی اور کہا کہ ساحلی علاقوں سے لوگوں کا مکمل انخلا یقینی بنایا جائے اور متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو امدادی سامان فراہم کیا جائے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ تمام ادارے اجتماعی طور پر بائپر جوائے طوفان سے پیدا ہونے والی ممکنہ صورتحال سے نمٹیں گے، اجلاس کے شرکاء کو سمندری طوفان کے روٹ اور ساحلی علاقوں سے ممکنہ ٹکراؤ کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔

انہیں بتایا گیا کہ موجودہ صورتحال کے مطابق طوفان 15 جون کو کیٹی بندر سے ٹکرانے کا امکان ہے اور تین دن کے اندر مکمل طور پر ختم ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ہوائیں اوسطاً 140-150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہیں۔

شرکا مزید بتایا گیا کہ 9 ہزار گھرانوں کے 50 ہزار افراد میں سے 90 فیصد کو ساحلی علاقوں سے منتقل کیا گیا ہے۔

شرکا کو بتایا گیا کہ بے گھر افراد کو سرکاری عمارتوں اور عارضی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے جہاں پاک فوج، این ڈی ایم اے، صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ خوراک، خیمے، مچھر دانی اور پینے کا صاف پانی فراہم کر رہی ہے۔

حکام کو بتایا گیا کہ سندھ اور بلوچستان کے ممکنہ طور پر متاثرہ ساحلی علاقوں میں تمام ریسکیو اور ریلیف ادارے ہائی الرٹ پر ہیں۔ اس کے علاوہ سمندر میں پہلے سے موجود ماہی گیروں کو بھی باہر نکالا جا رہا ہے اور دوسروں کو بھی سمندر میں جانے سے منع کیا جا رہا ہے۔

اجلاس کے شرکا کو طوفان کے روٹ میں تبدیلی کے باعث کراچی میں پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیے گئے انتظامات کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔

انہیں بتایا گیا کہ جیسا کہ کراچی میں بارش متوقع ہے، این ڈی ایم اے، صوبائی ادارے، ضلعی انتظامیہ اور تمام متعلقہ ادارے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔

قبل ازیں وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا تھا کہ بائپر جوائے کا خطرہ ایک حقیقت ہے، لوگوں کو چاہیے کہ گھبرائیں نہیں لیکن ساحلی علاقوں کے حوالے سے پی ڈی ایم اے سندھ اور پی ڈی ایم اے بلوچستان کی ایڈوائزری کو سنجیدہ لیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کی جانب سے اب تک اس طوفان کی شدت میں کمی آئی ہے، اس کی شدت میں تبدیلی آرہی ہے لیکن احتیاط بہت ضروری ہے، کراچی میں بارشوں کی شدت کے پیشِ نظر اربن فلڈنگ کا خدشہ ہے، ساحلی علاقوں سے احتیاطاً انخلا کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

شیری رحمٰن نے سمندری طوفان کے پیش نظر شہریوں سے احتیاطی تدابیر سختی سے اپنانے کی اپیل کی ہے۔

انخلا کا عمل جاری

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سمندری طوفان کے پیشِ نظر اب تک ساحلی علاقوں سے 38 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرلیا گیا ہے۔

سندھ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ آج رات سے 50 ہزار سے زائد لوگوں کو ہم محفوظ مقامات پر منتقل کریں گے، کیمپس میں لوگوں کو تمام سہولیات مہیا کریں گے، لیکن انتظامیہ کی توجہ اس وقت انخلا کے عمل پر ہے اس لیے ممکن ہے کہ کیمپس میں اتنی بہتر سہولیات نہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں کلاؤڈ برسٹ کا امکان ہے جس سے 60 ملی میٹر بارش ہوسکتی ہے، جمعرات اور جمعے کو اس صورتحال کے واضح اثرات نظر آنا شروع ہوں گے، لوگوں سے اپیل ہے کہ غیرضروری طور پر گھروں سے نہ نکلیں۔

قبل ازیں مراد علی شاہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ سمندری طوفان کے پیش نظر ساحلی پٹی کے شہروں سے لوگوں کا انخلا رات بھر جاری رہا، کیٹی بندر کی 13 ہزار کی آبادی خطرے میں ہے جس میں سے 3 ہزار کو رات بھر منتقل کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گھوڑاباری کی 5 ہزار آبادی کو خطرہ ہے جس میں سے 100 لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا ہے، شہید فاضل راہو کی 4 ہزار آبادی کو طوفان کا خطرہ ہے جس میں سے 3 ہزار کو منتقل کردیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بدین کی ڈھائی ہزار آبادی کو خطرہ ہے جس میں سے 540 ابھی تک محفوظ مقام پر منتقل ہو چکے ہیں، شاہ بندر کی 5 ہزار آبادی سمندری طوفان کی زد میں آنے کا خطرہ ہے اس لیے 90 لوگوں کو گزشتہ شب محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ جاتی کی 10 ہزار آبادی کو طوفان کا خطرہ ہے، رات بھر ان میں سے 100 لوگوں کو منتقل کردیا گیا، کھاروچھان کی 1300 کی آبادی کو خطرہ ہے جس میں سے 6 لوگ رات بھر منتقل کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک 40 ہزار 800 میں سے 6 ہزار 836 لوگ منتقل ہو چکے ہیں، باقی لوگوں کی منتقلی کا سلسلہ دن بھر جاری رہے گا، ٹھٹہ، بدین، اور سجاول اضلاع کے لوگوں کو بھی انتظامیہ منتقل کرتی رہے گی۔

مراد علی شاہ نے کہا لوگ اپنے گھر چھوڑنا نہیں چاہتے لیکن ان کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ انتظامیہ سے تعاون کریں اور محفوظ مقام پر منتقل ہو جائیں۔

ایک لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جانا ہے، چیئرمین این ڈی ایم اے

چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے کہا ہے کہ سمندری طوفان کے پیش نظر تقریباً ایک لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جانا ہے، کل شام تک یا 15 جون کی صبح تک یہ عمل مکمل کرلیا جائے گا۔

اسلام آباد میں وزیربرائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ جو طوفان بننا شروع ہوا ہے اس کی پیش گوئی ہم نے مارچ میں محکمہ موسمیات کی جانب سے ’ارلی وارننگ‘ کے بعد کردی تھی کہ اس بار ’ارلی ہیٹ‘ کا خطرہ ہے، اس لیے شمالی علاقہ جات میں برفانی تودے جلدی اور زیادہ پھگلیں گے اور بحیرہ عرب میں طغیانی کا امکان ہے جس میں اسی طرح کے سائیکلون کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت اس طوفان کا رخ شمال اور شمال مشرق کی جانب مڑتا نظر آرہا ہے، آج رات اور کل صبح تک اس کا رخ پاکستان میں کیٹی بندر اور بھارتی گجرات کے درمیان طے ہوجائے گا، 5 جون سے آج تک اس کی تیزی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، اس لیے اس کو ہم نے ’انتہائی شدید سمندری طوفان والی ایمرجنسی‘ ڈکلیر کیا ہے، 15 جون کو یہ کیٹی بندر کے ملحقہ علاقوں میں لینڈ فال کرے گا، اس کا پھیلاؤ زیادہ ہے اس لیے اس سے جنوبی سندھ اور جنوب مشرقی سندھ کے علاقے بھی اس سے متاثر ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیٹی بندر اور اس کے ساتھ ساحلی پٹی کے لیے ہم نے خاص طور پر الرٹ جاری کردیا ہے، مسلح افواج، پاکستان آرمی، سندھ رینجرز اور حکومت سندھ اور دیگر رضاکار وہاں لوگوں کے محفوظ انخلا کے لیے سرگرم ہیں، پانی واپس اترنے تک ان لوگوں کو ان کیمپس میں رہائش اختیار کرنی ہوگی، تقریباً ایک لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جانا ہے، کل شام تک یا 15 جون کی صبح تک یہ عمل مکمل کرلیا جائے گا۔

اس موقع پر شیری رحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ یاددہانی کی ضرورت ہے کہ سمندری طوفان کے ممکنہ خطرے کا شکار وہی لوگ ہیں جو گزشتہ برس سیلاب سے متاثر ہوئے تھے، سندھ ہی وہ صوبہ ہے جو سیلاب سے بھی سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا اور متاثرین اب تک بحالی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔

ڈی جی رینجرز کی زیر صدارت اجلاس

دریں اثنا ڈائریکٹر جنرل رینجرز (سندھ) میجر جنرل اظہر وقاص نے سجاول، بدین اور ٹھٹہ کا دورہ کیا۔

ترجمان رینجرز کی جانب سے جاری کردہ ایک ہینڈ آؤٹ کے مطابق انہوں نے سرحدی سیکٹر کمانڈرز اور ونگ کمانڈرز کے اجلاس کی صدارت بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ ڈی جی رینجرز (سندھ) کی ہدایات پر ساحلی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے، شہریوں کے محفوظ انخلا کے لیے لاؤڈ اسپیکر پر اعلانات کیے جا رہے ہیں۔

ڈی جی رینجرز (سندھ) نے حکام کو ہدایت کی کہ شہریوں کے بحفاظت انخلا میں سول انتظامیہ اور ریسکیو اہلکاروں کی مدد کریں، انہوں نے علاقہ سیکٹر کمانڈرز کو بھی ہدایت کی کہ وہ سول انتظامیہ کو فری میڈیکل کیمپس اور امدادی اشیا کی فراہمی میں مدد کریں۔

ڈی جی رینجرز (سندھ) نے ڈسٹرکٹ لیول پر سول انتظامیہ کے ساتھ کنٹرول روم قائم کرنے کی ہدایات بھی جاری کی، شہری کسی بھی ناگہانی صورتحال میں رینجرز ہیلپ لائن 1101، قریبی چیک پوسٹ یا رینجرز مدد گار کے واٹس ایپ نمبر 03479001111 پر کال یا ایس ایم ایس کے ذریعے رابطہ کرسکتے ہیں۔

’گرم ہوائیں راجستھان سے آرہی ہیں، گرمی کا اثر برقرار رہے گا‘

ڈپٹی چیف میٹرولوجسٹ انجم نے کہا کہ اس طوفان نے گزشتہ 12 گھنٹوں کے دوران شمال، شمال مغرب کی سمت میں سفر کیا ہے، اس وقت یہ کراچی سے 460 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے، کل (14 جون) صبح یہ طوفان اپنا رخ تبدیل کرے گا اور شمال مشرق کی جانب حرکت شروع کردے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس طوفان کے اثرات آج کچھ حد تک اور کل سے کراچی اور سندھ کی ساحلی پٹی پر نظر آنا شروع ہوجائیں گے، کراچی میں آج شمال مشرق، مشرق کی سمت ہوائیں چل رہی ہیں، جن کی رفتار 15 سے 20 کلومیٹر اور کبھی کبھی 25 کلومیٹر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شمال مشرق سے یہ گرم ہوائیں راجستھان سے آرہی ہیں اس لیے گرمی کا اثر برقرار رہے گا، لیکن کل کی نسبت آج درجہ حرارت میں ایک سے ڈیڑھ ڈگری کمی آئے گی، یہ طوفان 15 جون کی دوپہر یا شام کو کیٹی بندر کے مشرق اور بھاری گجرات کے علاقے کچھ میں ٹکرائے گا۔

ڈپٹی چیف میٹرولوجسٹ نے کہا کہ طوفان کی وجہ سے کراچی میں آج بھی ہوائیں چلیں گی، چند ایک مقامات پر گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش ہوسکتی ہے، کل سے 16 یا 17 جون تک کراچی میں وقفے وقفے کے ساتھ بارش اور تیز ہوائیں چل سکتی ہیں جن کی رفتار 40 سے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوسکتی ہے۔

سمندری پانی دیمی زر میں داخل

دریں اثنا بائپر جوائے کے اثرات اورماڑہ کے علاقے دیمی زر میں دکھنا شروع ہوگئے جہاں لہریں بلند ہونے کی وجہ سے پانی آبادی میں داخل ہوگیا، اورماڑہ کے دیگر علاقوں میں واقع سڑکوں کے کنارے تک پانی آگیا۔

ڈپٹی کمشنر گوادر عزت نذیر نے کہا کہ سمندری پانی دیمی زر میں داخل ہوگیا ہے، لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے انتظامات کیے جارہے ہیں، پانی کو روکنے کے لیے بھاری مشینری کے ذریعے بند باندھنے کا کام بھی شروع کیا جارہا ہے۔

آج سے بارشوں کا امکان

چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز نے کہا کہ اس سمندری طوفان کا بھارت میں گجرات کے علاقے کچھ سے ٹکرانے کا امکان ہے، لیکن اس کا بیرونی دائرہ زیریں سندھ سے گزرنے کا بھی امکان موجود ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ یہ سسٹم آج (منگل) سے زیریں سندھ بالخصوص سجاول، ٹھٹہ، بدین، میرپورخاص، تھرپارکر اور عمرکوٹ کے اضلاع میں تیز ہواؤں، گردوغبار کے طوفان اور گرج چمک کے ساتھ درمیانی یا شدید بارشوں کا سبب بنے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ طوفان بائپر جوائے میں ایک بہت بڑا بادل ہے جو سمندر میں تقریباً 200 سے 300 کلومیٹر رقبے پھیلا ہوا ہے، اس لیے وسطی سندھ تک بارشوں کا امکان ہے تاہم ان کی شدت اتنی نہیں ہو سکتی جتنی زیریں سندھ میں ہونے کی توقع ہے، امکان نہیں ہے کہ یہ سمندری طوفان خشکی سے ٹکرانے کے بعد اپنی شکل تبدیل کرلے گا۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بائپر جوائے کی مسلسل مانیٹرنگ جاری ہے۔

این ڈی ایم اے کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹ میں کہا گیا کہ اس طوفان کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے، فعال تیاری و تدارک کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا مسلسل جائزہ لیا جا رہا ہے، ساحلی علاقوں کے مکین باخبر و محتاط رہیں۔

احتیاطی تدابیر نظرانداز

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 9 جون کو کے ایم سی، ڈی ایم سیز اور کنٹونمنٹ بورڈز کو بل بورڈز، سائن بورڈز اور دیگر اشتہاری مواد کو فوری طور پر ہٹانے کے ساتھ ساتھ ڈی واٹرنگ پمپس کی دستیابی کو یقینی بنانے کے احکامات جاری کیے تھے تاکہ طوفان کی صورت میں پانی کی ہموار انداز میں نکاسی کو یقینی بنایا جا سکے، علاوہ ازیں خطرے کا شکار عمارتوں (خاص طور پر سمندر کے کنارے موجود عمارتوں) خالی کرانے کی ہدایت دی گئی تھی۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان احکامات پر بظاہر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، جنوبی اور وسطی اضلاع کے کئی علاقوں میں تاحال چند ہی بل بورڈز کو ہٹایا گیا ہے، علاوہ ازیں پانی صاف کرنے والے پمپ بھی غیر موجود ہیں۔

گزشتہ ہفتے ڈی ایچ اے نے اپنے رہائشیوں (خاص طور پر فیز 5، 6 اور 8 میں سمندر کے سامنے رہنے والوں) کو انتباہ جاری کیا تھا کہ وہ تہہ خانوں، گراؤنڈ فلورز اور چھتوں سے تمام قیمتی اشیا کو ہٹا دیں، تاہم بہت سے شہریوں کو اب بھی یہی لگتا ہے کہ طوفان سے انہیں کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔

طوفان کے شہر سے ٹکرانے کی صورت میں کراچی کے ساحلی علاقوں (مثلاً ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ، لٹھ بستی، چشمہ گوٹھ وغیرہ) سے یقینی طور پر انخلا کی ضرورت ہوگی لیکن کھلے نالے اور کھودی ہوئی سڑکیں اس کے برعکس صورتحال کی منظرکشی کر رہے ہیں، شہر کے لوگوں میں بےیقینی اور کسی ممکنہ خطرے سے انکار کا احساس بھی موجود ہے۔

دفعہ 144 کے تحت ساحل سمندر پر جانے یا سمندر میں نہانے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے جبکہ عبدالستار ایدھی ایونیو سے ساحل سمندر تک جانے کا راستہ بند کر دیا گیا ہے۔

کراچی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی

دریں اثنا وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے طوفان کے متوقع لینڈ فال سے قبل انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ روز کیٹی بندر کا دورہ کیا، انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ صوبائی حکومت لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔

ایک ہینڈ آؤٹ کے مطابق مراد علی شاہ نے کراچی ڈویژن کے تمام بڑے ہسپتالوں میں ایمرجنسی کا اعلان کردیا اور تمام ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو طوفان کے دوران اپنی دستیابی یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔

ایک علیحدہ بریفنگ میں وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ کیٹی بندر میں ضلعی انتظامیہ اور بحریہ شہریوں کے انخلا کے لیے سرگرم ہے اور 500 دیہاتیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

ہیلپ لائن

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے شہریوں کے لیے جاری پیغام میں کہا گیا ہے کہ کسی ہنگامی صورتحال میں درج ذیل ہیلپ لائن پر رابطہ کریں۔

کنٹرول روم جنوبی 021-99205628

کنٹرول روم کورنگی 02199333926

کنٹرول روم کیماڑی 02199333176

کنٹرول روم ملیر 02199248916

کنٹرول روم بدین 0297920013

کنٹرول روم ٹھٹہ 02989200613

کنٹرول روم سجاول 0298510833

ممکنہ اثرات

محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری ایڈوائزری میں اس طوفان کے ممکنہ اثرات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، اس کے مطابق:

  • اس طوفان کے جنوب مشرقی سندھ کے ساحل تک پہنچنے پر ٹھٹہ، سجاول، بدین، تھرپارکر اور عمرکوٹ اضلاع میں 13 سے 17 جون کے دوران 80 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں چلنے اور گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش کا امکان ہے۔
  • 13 اور 14 جون سے 16 جون تک کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈوالہیار، میرپورخاص اضلاع میں 60 سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں اور آندھی/گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش کا امکان ہے۔
  • تیز ہوائیں کمزور/کچے مکانات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
  • ماہی گیروں کو مشورہ ہے کہ وہ کھلے سمندر میں نہ جائیں جب تک کہ یہ سسٹم 17 جون تک ختم نہ ہو جائے، کیونکہ بحیرہ عرب کی صورتحال مزید شدت اختیار کرسکتی ہے اور ساحل سمندر کے نزدیک اونچی لہریں بھی آسکتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں