وزیراعظم اتحادی جماعتوں، تاجروں کو اعتماد میں لینے کیلئے سرگرم

آئندہ ماہ کے آغاز میں وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض سے ملاقات متوقع ہے— فائل فوٹو: ٹوئٹر
آئندہ ماہ کے آغاز میں وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض سے ملاقات متوقع ہے— فائل فوٹو: ٹوئٹر

وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے گزشتہ روز نگران سیٹ اپ کی تشکیل اور عام انتخابات ممکنہ طور پر رواں برس نومبر میں کرانے کے حوالے سے مشاورت کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم 10 محرم (عاشورہ) کے بعد مشاورت کا حتمی سلسلہ شروع کریں گے، جس میں حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

بعد ازاں آئندہ ماہ کے آغاز میں اُن کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض سے ملاقات متوقع ہے، ملاقات کے دوران دونوں رہنما نگران وزیراعظم کے عہدے کے لیے 3، 3 نام پیش کریں گے، جن میں سے ایک نام پر حتمی طور پر اتفاق کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم نے نومبر میں عام انتخابات کے ممکنہ انعقاد کے حوالے سے نگران سیٹ اپ کی تشکیل پر حکمران اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف علی زرداری، بی این پی-مینگل کے سربراہ اختر مینگل اور جمہوری وطن پارٹی کے رہنما نوابزادہ شاہ زین بگٹی سے وزیر اعظم پہلے ہی ملاقات کر چکے ہیں۔

قبل ازیں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ حکومت آئندہ ماہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے قبل باگ ڈور نگران حکومت کو سونپ دے گی، جس کا مطلب ہے کہ نگران حکومت کے پاس ملک میں انتخابات کے انعقاد کے لیے 3 ماہ کا وقت ہوگا۔

اگر حکومت 12 اگست (قومی اسمبلی کی میعاد ختم ہونے) سے پہلے تحلیل ہوجاتی ہے تو 90 روز کے اندر انتخابات ہوں گے اور اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے تو الیکشن کمیشن 60 روز کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہے۔

’موجودہ سیاسی اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ اتحاد کی خواہش‘

دریں اثنا وزیراعظم نے آئندہ عام انتخابات میں پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی صورت میں مرکز میں مخلوط حکومت بنانے کے لیے موجودہ سیاسی اتحادیوں کے ساتھ ہی دوبارہ اتحاد کی خواہش ظاہر کی۔

وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار کراچی میں گورنر ہاؤس میں نوجوانوں کے لیے لیپ ٹاپ اور چیکس کی تقسیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، تقریب میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے سینئر رہنما بھی موجود تھے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ آئندہ ماہ ہماری حکومت کی مدت پوری ہو رہی ہے، خدا جانتا ہے کہ انتخابات کے بعد اگلی بار کون اقتدار میں آئے گا لیکن اگر ہمیں موقع دیا گیا تو ہم اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ حکومت بنائیں گے اور ہم اس لیپ ٹاپ کی تقسیم کے پروگرام کو مزید وسعت دیں گے۔

انہوں نے گورنر ہاؤس میں ایم کیو ایم (پاکستان) کے رہنماؤں سے ملاقات بھی کی جنہوں نے کے-الیکٹرک کی کارکردگی اور بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے کے خلاف سخت احتجاج ریکارڈ کروایا۔

وزیراعظم آفس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ملاقات کے دوران ایم کیو ایم (پاکستان) کے رہنماؤں نے نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندی پر اگلے انتخابات کا معاملہ بھی اٹھایا۔

وزیراعظم نے ایم کیو ایم (پاکستان) کو یقین دلایا کہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ تمام اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے کیا جائے گا۔

شہباز شریف نے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کو بھی ہدایت کی کہ وہ ایم کیو ایم (پاکستان) کے رہنماؤں کے ساتھ کے-الیکٹرک کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کریں تاکہ پارٹی کی شکایات ان کے سامنے رکھی جائیں اور ان کا حل تلاش کیا جائے۔

’تاجر، صنعتکار اسلام آباد آئیں اور تھر میں پاور پلانٹ لگانے کیلئے بات کریں‘

قبل ازیں وزیراعظم نے کراچی میں مصروف دن گزارا، تاجر برادری کے ارکان سے ملاقاتیں کیں اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے زیر اہتمام ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کیا۔

وزیر اعظم نے تاجروں اور صنعت کاروں کو دعوت دی کہ وہ اسلام آباد آئیں اور تھر میں پاور پلانٹ لگانے کے لیے بات چیت کریں جس سے ان کو فی یونٹ بجلی 28 روپے تک فراہم ہوگی۔

انہوں نے گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سے کہا کہ صنعت کاروں اور تاجروں کی فہرست فراہم کریں تاکہ 14 اگست کو ان کو اسلام آباد میں بہترین ایوارڈ دیں تاکہ قوم کو پتا چلے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تمام خطرات مول لے کر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں گیس اور تیل کی پیداوار انتہائی محدود ہے، تمام عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ایک وسیع ایکسپورٹ پالیسی بنانی چاہیے، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ہمارے ہاتھ باندھے ہیں، 9 ماہ کا عرصہ بالکل مختصر ہے اور اگر ہم نے تعمیر نو کرلی تو آپ اور حکومت کی مکمل معاونت سے فنڈ پروگرام سے باہر نکلیں گے۔

کراچی کے انفرااسٹرکچر پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’کے فور‘ منصوبے کے لیے اس بجٹ میں وفاقی حکومت نے 16 ارب مختص کیے ہیں، لیکن امید ہے کہ نگران حکومت کہیں سے وسائل نکال کر اس میں اضافہ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے کماؤ ترین شہر میں عوام کو پینے کا پانی میسر نہ ہو تو اس سے بڑی شومی قسمت کی بات نہیں ہو سکتی، لہٰذا وفاق اور صوبہ مل کر جتنا جلدی ہو سکے کراچی کے پانی کا مسئلہ حل کریں جو کہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں