عمران خان اٹک جیل کی بی-کلاس میں قید، وکلا سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی

ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن نے بتایا کہ قانونی ٹیم کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی — فوٹو: اے ایف پی
ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن نے بتایا کہ قانونی ٹیم کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی — فوٹو: اے ایف پی

کرپشن کیس میں اٹک جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کو محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کی جانب سے ’بی کلاس‘ سہولیات فراہم کی گئی ہیں، ان کے وکلا اور پارٹی کا دعویٰ ہے کہ انہیں جیل انتظامیہ نے چیئرمین پی ٹی آئی سے ملنے کی اجازت نہیں دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک اندرونی ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کو اٹک جیل منتقل کرنے کے منصوبے کے بارے میں جیل حکام کو مکمل طور پر لاعلم رکھا گیا تھا، انہیں لگ رہا تھا کہ سابق وزیر اعظم کو اڈیالہ جیل لے جایا جائے گا لیکن انہیں پلان کی تبدیلی کا علم اس وقت ہوا جب پی ٹی آئی چیئرمین کو اٹک جیل کے باہر لایا گیا۔

دریں اثنا پی ٹی آئی چیئرمین کے معاون برائے قانونی امور نعیم حیدر پنجوتھا نے کہا کہ اٹک جیل کو عمران خان کے وکلا یا مقامی لوگوں کے لیے ’نو گو ایریا‘ بنا دیا گیا ہے۔

قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں کپڑے، کھانا، دیگر ضروری اشیا فراہم اور ان کے دستخط حاصل کر سکیں، حکام نے پی ٹی آئی چیئرمین سے ملاقات کی اجازت نہیں دی اور وکلا کو پاور آف اٹارنی حاصل کرنے کے لیے پیر کو (آج) دوبارہ آنے کو کہا۔

عمران خان کی قانونی ٹیم میں شامل ایک وکیل نے کہا کہ ہم نے انہیں بتایا کہ ہمیں مختلف درخواستیں دائر کرنے اور مختلف عدالتی احکامات کو چیلنج کرنے کے لیے پاور آف اٹارنی کے ساتھ ساتھ عمران خان کے دستخط شدہ دیگر دستاویزات کی ضرورت ہے۔

ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن نے بتایا کہ قانونی ٹیم کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، جیل انتظامیہ نے ملاقات کی اجازت دینے سے یکسر انکار کر دیا۔

پی ٹی آئی کا عمران خان کی رہائی کا مطالبہ

پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں عمران خان کی جان کو خطرات لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

اجلاس میں عمران خان کو اڈیالہ جیل کے بجائے اٹک میں رکھنے اور ان کی قانونی ٹیم کو ان سے ملاقات کی اجازت نہ دینے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا، کمیٹی نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ عمران خان کو اسلام آباد پولیس کے بجائے پنجاب پولیس نے کیوں گرفتار کیا؟

انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا عمران خان کا طبی معائنہ قانونی تقاضوں کے مطابق کیا گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر رپورٹس پارٹی اور وکلا کے ساتھ کیوں شیئر نہیں کی جا رہیں؟

ایک ویڈیو بیان میں شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا کہ اٹک جیل میں بی-کلاس تک کی سہولت ہی موجود نہیں ہے، تاہم محکمہ جیل خانہ جات نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا کہ سابق وزیراعظم کو 9 بائی 11 فٹ کے سیل میں رکھا گیا ہے، پی ٹی آئی پیر (آج) کو عمران خان کی رہائی کے لیے درخواست دائر کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔

’اپیل کا حق‘

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عمران خان اب بھی فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق رکھتے ہیں، توشہ خانہ ریفرنس میں انہیں دی گئی سزا قانون کے عین مطابق ہے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا گیا لیکن وہ 40 مرتبہ عدالتی سمن جاری ہونے کے باوجود صرف 3 سماعتوں میں پیش ہوئے۔

بی کلاس کی سہولیات

جیل کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ عمران خان کو پاکستان پریزنز رولز 1978 کے تحت ’سزا یافتہ قیدی‘ کو حاصل تمام سہولیات فراہم کرنے کی اجازت دی گئی ہے، ان قوانین کے تحت قیدیوں کی اعلیٰ، عام اور سیاسی طبقے میں درجہ بندی کی گئی ہے۔

بی کلاس میں پی ٹی آئی چیئرمین کو کتابیں، من پسند اخبارات، ایک میز، ایک کرسی، 21 انچ کا ٹیلی ویژن، ایک گدا، کپڑے، جیل کا کھانا اور بیرک میں باتھ روم کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے، ان کے لیے باہر سے کھانا لانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

اسی طرح انہیں صفائی ستھرائی اور دھلائی کی سہولیات کے علاوہ بجلی کی فراہمی معطل ہونے کی صورت میں لیمپ رکھنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب ہفتے کو عمران خان کو جیل لایا گیا اس وقت ان کی صحت ٹھیک تھی، وہ ہفتے میں ایک بار اپنے اہل خانہ اور وکیل سے مل سکتے ہیں، اضافی مگر محدود سہولیات حاصل کرنے کے لیے انہیں جیل سپرنٹنڈنٹ سے اجازت لینی ہوگی۔

انہوں نے اٹک جیل کے باہر پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے پارٹی رہنما کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں بے امنی کی خبروں کی تردید کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں