خیرپور میں گھریلو ملازمہ کی پراسرار موت، قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کا عمل مکمل

اپ ڈیٹ 20 اگست 2023
سول جج کی ہدایت بچی کی قبر کشائی کے لیے میڈیکل ٹیم تشکیل دی گئی تھی: فائل فوٹو
سول جج کی ہدایت بچی کی قبر کشائی کے لیے میڈیکل ٹیم تشکیل دی گئی تھی: فائل فوٹو

سندھ ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ارشاد میمن نے کہا ہے کہ سندھ کے علاقے کہیرپور میں مبینہ طور پر تشدد کی وجہ سے ہلاک ہونے والی 9سالہ بچی کی قبر کُشائی اور پوسٹ مارٹم کا تجزیہ ہفتے کے روز مکمل کر لیا گیا۔

کمسن فاطمہ فریرو اثرورسوخ کے حامل مقامی پیر اسد شاہ کی حویلی میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی اور رواں ہفتے کے اوائل میں پراسرار حالات میں مردہ پائی گئی تھی اور پیر اسد شاہ کو اب حراست میں لیا جا چکا ہے۔

اس کے بعد کم سن ملازمہ کی والدہ شمیم خاتون کی شکایت پر رانی پور تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور تفتیش شروع کر دی گئی تھی۔

,

گزشتہ روز حکومت سندھ نے بچی کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کے لیے چار رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا۔

ڈاکٹر ارشاد میمن نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج شام ضلع نوشہرو فیروز کے ایک قبرستان میں قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کا عمل مکمل کرنے کے بعد کمسن ملازمہ کی لاش کی دوبارہ تدفین کردی گئی۔

انہوں نے کہا کہ قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کی کارروائی کا آغاز آج صبح کیا گیا جس میں دو ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں، ان میں سے ایک کا تعلق ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور دوسرے کا محکمہ صحت کراچی سے تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ فارنزک میڈیسن میں ماہر ڈاکٹر ذکی الدین بھٹی اور کراچی پولیس کی سرجن ڈاکٹر سمیہ سید بھی میڈیکل بورڈ کی مدد کے لیے وہاں موجود تھیں۔

مزید برآں، سندھ ہیلتھ سروسز کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بھی انتظامی معاونت کی فراہمی کے لیے موجود تھے۔

طریقہ کار کے لیے مردہ خانے کی کٹس تین اداروں ڈاکٹر رُتھ فاو سول ہسپتال کراچی، سول ہسپتال حیدرآباد اور پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز نواب شاہ نے فراہم کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک طویل طریقہ کار تھا جس میں تقریباً 100 افراد شامل تھے جن میں پولیس، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کے افسران کے ساتھ ساتھ ان کا معاون عملہ بھی شامل تھا۔

ڈاکٹر ارشاد میمن نے کہا کہ ہم فاطمہ کی موت کی وجہ سے متعلق حقائق جمع کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں تاکہ عدالت انصاف کی فراہمی یقینی بنا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ اب میڈیکل بورڈ کے ممبران نوشہروفیروز میں ایک رپورٹ کنسلٹیشن تیار کریں گے جہاں انہیں کیس اور دیگر متعلقہ معاملات کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات اکٹھا کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

سندھ ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر جنرل نے مزید بتایا کہ میڈیکل بورڈ نے جسم کے اندرونی اعضا کو بھی کیمیائی تجزیے کے لیے محفوظ کر رکھا تھا اور ایک عبوری رپورٹ آج رات تک تیار ہونے کی توقع ہے۔

فاطمہ کی مبینہ تشدد سے موت کا معاملہ

لڑکی کے والد ندیم علی فریرو نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ لڑکی پیٹ کی کسی بیماری میں مبتلا تھی جسے 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب ہسپتال لے جایا گیا اور بعد ازاں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد لڑکی اپنے گھر میں دم توڑ گئی۔

واضح رہے کہ تشدد کے نتیجے میں بچی کے ’قتل‘کے دعوے اس وقت منظر عام پر آئے جب لڑکی پر تشدد کی ویڈیوز وائرل ہوئیں۔

یہ بات معلوم نہیں ہوسکی کہ ویڈیوز کس نے لیک کی ہیں، تاہم پولیس ٹیم نے ویڈیوز حاصل کرلی تھیں اور علاقے کے متعدد سماجی کارکنان سے ملاقات بھی کیں۔

حویلی کا تعلق اس فیملی سے ہے جسے عام طور پر ضلع خیرپور میں رانی پور کے پیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پولیس نے معاملے کا نوٹس لیا تھا اور سکھر کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈی ایس پی قدوس کلوار نے لڑکی کے والدین سے ملاقات کی تھی۔

انہوں نے بعد میں سماجی کارکنوں سے ملاقات کی تھی اور وائرل ہونے والی ویڈیوز بھی دیکھی تھی، بعد ازاں سکھر کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل جاوید جسکانی کو اطلاع دی کہ معاملہ سنگین ہے اور فاطمہ کی قبر کُشائی کر کے لاش کا پوسٹ مارٹم ضروری ہے۔

دریں اثنا، فاطمہ کی والدہ کی شکایت پر مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔

17 اگست کو خیرپور پولیس نے اس کیس کے ایک اہم ملزم کو گرفتار کیا تھا جسے بعد میں پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔

خیرپور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) روحیل کھوسو نے اس دوران ڈان کو بتایا تھا کہ اس معاملے میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر امیر علی چانگ، ڈاکٹر فتح میمن (محکمہ صحت کا ملازم) اور ایک کمپاؤنڈر کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں سنگین خامیاں

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے کیس کی ایف آئی آر میں سنگین خامیوں کی نشان دہی کی تھی اور اس میں بچوں کے تحفظ اور جبری مشقت سے متعلق قوانین کے سیکشنز بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرپرسن اقبال ڈیتھو نے پراسرار حالات میں لڑکی کی موت کے بارے میں رپورٹ ہونے والے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 اور 34 کے تحت درج کی گئی ہے اور کمیشن نے کہا کہ جبری مشقت اور تشدد سے متعلق سیکشنز جیسا کہ 370 اور 374 کو جان بوجھ کر لاگو نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان سیکشنز میں سندھ بانڈڈ لیبر سسٹم (ابولیشن) ایکٹ 2015 کے سیکشن، سندھ پروبیشن آف امپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 2017 کی دفعہ 3 اور 14، سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ 2011 کی دفعہ 2 اور 17 شامل ہیں۔

انہوں نے ایس ایس پی کو ہدایت کی تھی کہ تشدد کے الزامات کے حوالے سے قانونی راستہ اختیار کیا جائے اور قتل کی منصفانہ اور شفاف انکوائری کی جائے، اگر مذکورہ بالا جرائم کے تحت مقدمہ تفتیش کے دوران سامنے آیا تو انسانی حقوق کے وسیع تر مفاد میں ایف آئی آر میں ان دفعات کو شامل کیا جائے۔

انہوں نے اس معاملے کی سماعت 21 اگست کو مقرر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدے سے نیچے کا افسر رپورٹ کے ساتھ پیش ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں