برطانیہ میں مردہ حالت میں برآمد 10 سالہ لڑکی کے کیس میں مشتبہ افراد تاحال مفرور

اپ ڈیٹ 28 اگست 2023
عرفان شریف کے والد نے اپنے بیٹے سے اپیل کی ہے کہ وہ سامنے آئیں—فوٹو: بی بی سی
عرفان شریف کے والد نے اپنے بیٹے سے اپیل کی ہے کہ وہ سامنے آئیں—فوٹو: بی بی سی

رواں ماہ کے آغاز میں برطانیہ میں اپنے گھر سے مردہ حالت میں برآمد 10 سالہ بچی سارہ شریف کے والد ملک عرفان شریف اور اہل خانہ کے دیگر افراد کی پاکستان میں جہلم پولیس نے تلاش تیز کر دی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس ٹیموں نے تمام ممکنہ ٹھکانوں پر متعدد چھاپے مارے، جن میں ملک عرفان شریف کے آبائی شہر جہلم کے علاقے دینا، سارہ کی والدہ کے آبائی شہر میرپور آزاد جموں و کشمیر اور سیالکوٹ بھی شامل ہیں جہاں ملزمان کے قریبی رشتہ دار رہتے ہیں۔

تاہم پولیس نے کہا کہ مذکورہ خاندان تاحال لاپتا ہے، عرفان شریف نے ڈھونڈ نکالے جانے سے بچنے کے لیے اضافی احتیاطی تدابیر اختیار کر رکھی ہیں، حکام نے امکان ظاہر کیا کہ مشتبہ خاندان کسی دوسرے صوبے میں کہیں انڈرگراؤنڈ ہو گیا ہے۔

تاہم ڈی پی او جہلم ناصر محمود باجوہ نے امید ظاہر کی کہ مرکزی ملزم کو 24 گھنٹوں میں گرفتار کر لیا جائے گا، اولگا شریف اور 31 سالہ ملک عرفان شریف کی بیٹی سارہ شریف کی لاش 10 اگست کی صبح سویرے ووکنگ کونسل میں واقع گھر سے ملی تھی، پولیس کا کہنا ہے کہ جب لاش ملی تو گھر میں کوئی اور موجود نہیں تھا۔

لاش برآمد ہونے کے بعد قتل کی تحقیقات کا آغاز کیا، پولیس نے تحقیقات کے سلسلے میں سارہ کے والد سمیت 3 مشتبہ افراد کی تلاش شروع کی۔

لندن پولیس کو بتایا گیا کہ ملزمان نے پاکستان فرار ہونے کے لیے یک طرفہ ہوائی ٹکٹوں پر ہزاروں پاؤنڈ خرچ کیے تھے، انٹرپول نے پاکستانی پولیس حکام کو مشتبہ افراد کا سراغ لگانے میں مدد کرنے کے لیے الرٹ کردیا ہے۔

مسلسل تعاقب جاری

راولپنڈی کے ریجنل پولیس افسر سید خرم علی شاہ نے بتایا کہ پولیس کی ٹیمیں مشتبہ افراد کا مسلسل تعاقب کر رہی ہیں اور مشتبہ خاندان کے ممکنہ ٹھکانوں کا سراغ لگانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے اسلام آباد ایئرپورٹ کے امیگریشن کاؤنٹر کی ویڈیو فوٹیج حاصل کی اور دیکھا کہ ملک عرفان شریف، ان کی اہلیہ اور بچے 9 اگست کو وہاں پہنچے تھے۔

بعد ازاں وہ ہوائی اڈے کے احاطے سے نکل گئے لیکن باہر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سے یہ واضح نہیں کہ انہوں نے اپنی منزل کی جانب روانہ ہونے کے لیے ٹرانسپورٹ کے کس ذرائع کا انتخاب کیا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس نے مرکزی ملزم کے ماموں اور بھائی کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا لیکن انہیں عرفان شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے موجودہ ٹھکانے کے بارے میں واضح طور پر کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔

سید خرم علی شاہ نے نے کہا کہ انہوں نے عرفان شریف کے بھائی سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر ایک پولیس ٹیم کو میرپور روانہ کیا کیونکہ انہوں نے بتایا کہ عرفان شریف کی اہلیہ کا تعلق میرپور سے ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس ٹیم نے مقامی پولیس کے ہمراہ میرپور میں گھر پر چھاپہ مارا تاہم انہیں وہاں مفرور خاندان نہ ملا، پولیس نے سیالکوٹ میں مرکزی ملزم کے کچھ قریبی رشتہ داروں کے گھروں پر بھی چھاپہ مارا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ مرکزی ملزم کافی ہوشیار معلوم ہوتا ہے جس نے نہ تو مقامی سم استعمال کی اور نہ ہی کسی اور ذریعے سے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کیا، ممکنہ طور پر اسے خبردار کردیا گیا تھا کہ پولیس اس کی بیٹی کے قتل کیس کے تناظر میں اس کا اور اس کے خاندان کا بھرپور طریقے سے تعاقب کر رہی ہے۔

عرفان شریف کے والد کی اپیل

دوسری جانب عرفان شریف کے والد نے اپنے بیٹے سے اپیل کی ہے کہ وہ سامنے آئیں اور پولیس سے بات کریں۔

’سنڈے ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے 68 سالہ محمد شریف نے اپنے بیٹے کو منظرعام پر آنے کی تلقین کی، انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ سامنے آئے، ہم اس معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ پولیس کے بار بار چھاپوں کی وجہ سے ہمارا رازداری کا حق متاثر ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پہنچنے کے بعد جب ان کا بیٹا جہلم میں ان سے مختصر ملاقات کے لیے آیا تو اس نے انہیں اپنی بیٹی سارہ کی موت کی اطلاع نہیں دی تھی۔

گزشتہ روز خبروں میں بتایا گیا کہ پاکستان میں پولیس ایک موبائل فون سم کو ٹریک کر رہی ہے جس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ عرفان شریف کے زیرِاستعمال ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں