پاور سیکٹر میں سرکاری اداروں کی جانب سے استعمال کیے جانے والی مفت بجلی کے یونٹس کی کل لاگت 22 ارب سے 25 ارب روپے سالانہ کے درمیان ہے جبکہ دیگر سرکاری محکموں کے گریڈ ایک سے 22 تک کے ملازمین کو دیے جانے والے الاؤنس بھی اربوں روپے کے ہیں، جس کے بعد حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ اس کا اقتصادی بوجھ صارفین پر ڈالا جائے۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطاق ذرائع اس اقتصادی بوجھ کو صلاحیت کی بھاری ادائیگیوں کے مقابلے میں بڑا اثر نہیں سمجھتے، جو کہ اب 20 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں اور رواں برس کے آخر تک آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو واجب الادا ہیں۔

ٹیکس اور اربوں روپے کے لائن لاسز کی وجہ سے مجموعی مالیاتی اثرات بھی بتدریج مہنگے بلوں کی صورت میں بجلی کے صارفین کو منتقل کیے جارہے ہیں۔

پاور ڈسٹری بیوشن کمپنی (ڈسکو) کے ایک سابق چیف ایگزیکٹو افسر، صلاحیت کی ادائیگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی بھی ان اہم مسائل کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہے جو صارفین پر مہنگے بلوں کی وجہ سے بہت زیادہ مالی دباؤ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاور سیکٹر کے ملازمین کو مفت یونٹس ایک بہت ہی معمولی بات ہے، کیونکہ صلاحیت کی ادائیگیاں 20 کھرب روپے تک پہنچ گئی ہیں، تکنیکی اور تجارتی نقصانات اور متعدد ٹیکس بھی فی یونٹ کی شرح میں بڑے پیمانے پر اضافے کا باعث بنے ہیں۔

ان کے مطابق توانائی کے شعبے میں سرکاری اداروں کے متعدد ملازمین (تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار) کو ان کے پے اسکیلز کے مطابق جزوی یا مکمل طور پر بجلی فراہم کی جا رہی ہے، ان محکموں میں 9 ڈسکوز، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی)، واپڈا، کے-الیکٹرک، مختلف سرکاری جنریشن کمپنیاں (جینکوز)، سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے)، پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو)، وزارت توانائی، اور دیگر متعلقہ کمپنیاں شامل ہیں۔

سرکاری کمپنیوں کے ملازمین کے لیے پاور سیکٹر کی سبسڈی کا حساب لگاتے ہوئے سابق عہدیدار نے کہا کہ اُن میں سے ہر ایک اوسطاً ماہانہ تقریباً 300 مفت یونٹ استعمال کر رہا ہے، فرض کریں کہ لاگت 50 سے 55 روپے لگتی ہے تو اس حوالے سے ماہانہ اخراجات تقریباً 2 ارب روپے ہوں گے، اس طرح سالانہ اخراجات کم و بیش 24 ارب روپے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ملازمین کو جو یونٹ دیے جا رہے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو واپڈا، ڈسکوز اور جینکوز میں کام کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ ان ملازمین کے لیے ایک یقینی سہولت ہے، کسی بھی گریڈ میں شامل ہونے کے بعد ہر ملازم کو ایک ’ایمپلائی کوڈ نمبر‘ الاٹ کیا جاتا ہے جس کے تحت مفت یونٹس کی تعداد کو اس ملازم کے بل/بجلی کنکشن شیٹ کے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ میں ڈال دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ملازم 200 یونٹ استعمال کرتا ہے، (جو کہ اجازت شدہ حد سے 100 یونٹس زیادہ ہے) تو اسے صرف 100 اضافی یونٹوں کا بل دیا جاتا ہے لیکن بجلی کی پیداوار میں شامل اداروں کی صورت حال مختلف ہے کیونکہ شاید وہاں کے ملازمین کو تقریباً لامحدود یونٹس دیے جا رہے ہیں، ان میں سے زیادہ تر ملازمین جنریشن پلانٹس (تربیلا، منگلا وغیرہ) اور جینکوز کے ملازمین کی کالونیوں میں رہ رہے ہیں جو بجلی کی پیداوار کے لیے گیس اور ڈیزل استعمال کر رہے ہیں، مفت یونٹس کا بجٹ ہمیشہ مذکورہ تنظیموں کے سالانہ بجٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔

دیگر محکموں کو ملنے والی مفت بجلی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق عہدیدار نے کہا کہ ڈسکوز کی جانب سے قانون کے مطابق سب کو بل دیا جاتا ہے لیکن اس کی ادائیگی متعلقہ محکمے اپنے ملازمین کو الاؤنس کی شکل میں دیتے ہیں، مثال کے طور پر اگر کوئی جج 2 ہزار یونٹ استعمال کرتا ہے تو متعلقہ ڈسکوز انہیں بل بھیجیں گے جو کہ انہیں ادا کرنا بھی ہوتا ہے لیکن ادائیگی کے بعد وہ اپنے محکموں سے اس کا دعویٰ (کلیم) کرتے ہیں یا یکمشت رقم کی شکل میں بلوں کی ادا شدہ رقم کو ایسے افسران کی تنخواہ کا حصہ بنایا جاتا ہے۔

تاہم سابق عہدیدار اس حوالے سے مسلح افواج کے افسران کو دیے جانے والے الاؤنسز سے لاعلم تھے، انہوں نے کہا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں، دفاعی ادارے ڈسکوز سے بڑے پیمانے پر بجلی حاصل کرتے ہیں اور پھر وہ خود اسے اپنی کالونیوں، فارمیشنز وغیرہ کو فراہم کرتے ہیں؟

افسر نے کہا کہ لوگوں کو، خاص طور پر غریبوں کو بجلی فراہم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کی جائے اور آئی پی پیز کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ صلاحیت کی ادائیگیوں کی فیصد کو کم کریں، بجلی کی چوری (کمرشل لاسز) کو ختم کریں، بجلی کی تقسیم اور ترسیل کے نظام کو مضبوط کریں (11 کلو واٹ سے 500 کلو واٹ ٹرانسمیشن لائنز اور گرڈ اسٹیشنز) تاکہ تکنیکی نقصانات کم ہو اور بجلی کی چوری رکے، اس کے علاوہ اعلیٰ افسران کو ملنے والے فری یونٹس کی پالیسی پر نظرثانی کی جائے اور ہائیڈل پاور جنریشن کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔

ہائیڈل پاور جنریشن کے اثرات 2030 تک بتدریج شروع ہونے والے 3 بڑے جاری منصوبوں (بھاشا، داسو اور مہمند) کے شروع ہونے کے بعد ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ میرے خیال میں اگر آئی پی پیز عوامی مفاد میں کیپیسٹی چارجز سے متعلق معاہدوں پر نظر ثانی کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں، ڈسکوز لائن لاسز کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور حکومت ٹیکس کم کر دیتی ہے تو ٹیکس سمیت یونٹ کے ریٹ میں کافی کمی ہو جائے گی، جس سے صارفین کو بڑا ریلیف ملے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں یونٹس کے استعمال کے سلیب سے متعلق فیصلے پر بھی نظرثانی کرنے کی تجویز کروں گا کیونکہ اس سے بھی بلوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں