ماضی قریب میں کراچی میں انفرا اسٹرکچر سے متعلق ایسے حادثات رونما ہوئے جن کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حادثات کی فہرست طویل ہے، مثال کے طور پر لسبیلہ کے علاقے میں سیوریج کے نالے میں گیس بھر جانے سے ہونے والے دھماکے میں 9 افراد زخمی ہوئے۔ یہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ رہائشیوں اور راہ گیروں نے اسے بم دھماکا سمجھا۔ اسی طرح ناظم آباد کے علاقے میں سائن بورڈ ایک شخص کے اوپر کرگیا جس کے نتیجے میں وہ اپنی جان کی بازی ہار گیا۔ شہر میں کھلے گٹر بھی لوگوں کی زندگیاں نگل رہے ہیں، ملیر میں ہونے والے ایسے ہی ایک حادثے میں دو بچے کھلے گٹر میں گر کر ہلاک ہوگئے۔

انفرا اسٹرکچر سے متعلق دیگر خطرات میں خاص طور پر مون سون کے دوران کرنٹ لگنے کے واقعات بھی شامل ہیں۔ شہر میں آگ لگنے کے واقعات بھی تواتر سے رونما ہورہے ہیں جو اکثر ناقص برقی آلات کے استعمال کے باعث ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کورنگی میں آئل پائپ لائن میں خرابی کے نتیجے میں تیل پھیل گیا تھا۔

شہر میں ہونے والے ٹریفک حادثات بھی عام آدمی کے لیے ایک مستقل خطرہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار انفرا اسٹرکچر جیسا کہ پیدل چلنے والوں کے لیے بنائے جانے والے وہ پل جو خستہ حال ہوچکے ہیں اور ان پر ریلنگز بھی موجود نہیں ہیں پیدل چلنے والوں اور خصوصاً خواتین اور بچوں کے لیے بہت خطرناک ہیں۔

دوسری جانب شہر میں اسٹریٹ کرائم میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور میڈیا پر چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں کی ویڈیوز بھری پڑی ہیں۔ پھر اس شہر میں ایک انتہائی غیر متوقع مہمان بھی آیا جو شاہراہ فیصل پر گھومنے والا شیر تھا۔ یہ شیر بھی اس شہر کے بےترتیب انفرا اسٹرکچر میں کئی گھنٹوں تک پکڑے جانے سے بچا رہا۔

جب بھی کوئی اس شہر کے تباہ حال انفرا اسٹرکچر اور ناقص شہری انتظام کے حوالے سے تلخ حقائق کو شہری اور صوبائی رہنماؤں کے سامنے لاتا ہے تو فوراً ہی شہر میں بڑے منصوبوں کے لیے مختص کی گئی رقم کا ذکر کردیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر سیف سٹی منصوبے کو دیکھ لیجیے جس کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ 5 سال بعد بھی اس منصوبے پر برائے نام ہی کام ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کی لاگت 40 ارب روپے سے زیادہ ہوچکی ہے جوکہ ابتدائی تخمینے سے بہت زیادہ ہے۔ یہ رقم تو شاید کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ اس بارے میں بھی وضاحت کی ضروت ہے کہ صرف سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب سے کس طرح شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے گا کیونکہ ان کیمروں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کی رسپانس ٹیموں کے نیٹ ورک سے جوڑنے کے لیے تو بہت تفصیلی اور فول پروف منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔

شہر میں اربوں روپے مالیت کے ایک اور منصوبے ایس 3 پر بھی کام جاری ہے۔ اس کا مقصد سیوریج کے پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹس میں لے جانا ہے تاکہ اسے صاف کرکے چھوڑا جاسکے۔ لیکن کراچی میں گندے پانی کے انتظام کے کئی پہلو ہیں۔ برساتی نالے اب ثانوی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ گندے پانی کو یوں ہی گٹروں میں ڈال دیا جاتا پھر غیر منظم تعمیرات اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے سیوریج کا پانی شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں بہہ رہا ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ جب غیر منصوبہ بند تعمیرات گندے پانی کے نالوں کو بند کردیتی ہیں تو ان میں نقصان دہ گیسیں جمع ہوتی ہیں اور ان کے جمع ہونے سے دھماکے ہوتے ہیں۔ لہٰذا، گندے پانی کو ٹھکانے لگانے کے موجودہ نظام کی میپنگ کرنا، رکاوٹوں کی نشاندہی کرنا، آبادی کا تخمینہ لگانا اور گٹروں کی دوبارہ تعمیر شہر کے لیے بہتر ہوگی۔

شہر کی اکثر شاہراہوں کو بی آر ٹی کوریڈورز کی تعمیر کے لیے کھودا ہوا ہے۔ یونیورسٹی روڈ پر بڑی بڑی کرینیں برائے نام حفاظتی انتظامات کے ساتھ کام کرتی نظر آتی ہیں، اکثر اوقات تو مزدور مسافروں کو سرخ جھنڈا لہرا کر خبردار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سب کے باجود کسی متبادل راستے کا انتظام نہیں کیا گیا۔ ان سبسڈائزڈ ٹرانسپورٹ منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ کراچی بی آر ٹی عوامی فنڈز کے ضیاع کی بہترین مثال ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر تمام بی آر ٹی کوریڈور بھی فعال ہوجائیں تو بھی ان سے کُل مسافروں کے صرف 9 فیصد کو ہی سفری سہولیات فراہم ہوسکیں گی۔

ان کی تعمیر سے سڑکوں پر رش بڑھ سکتا ہے کیونکہ بی آر ٹی بسوں کے راستے کے لیے سڑک کی کچھ لینز کو ختم کرنا ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی سطحوں پر بی آر ٹی کے انتظام کے لیے نئے اداروں کی بہتات ہے جس کے باعث ان پر بھاری انتظامی اخراجات آتے ہیں۔ موجودہ معاشی بحران عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرضوں کی وجہ سے مزید سنگین ہوگیا ہے، ایسی صورتحال میں ان منصوبوں کے مالیاتی اور تکنیکی پہلوؤں پر سوال اٹھانا بنتا ہے جن سے مسافروں کو بہت کم سہولیات ملیں گی۔

کراچی کے شہری اس سے بہتر حالات کے حقدار ہیں۔ ہمارے شہری اداروں اور یوٹیلیٹی اداروں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات درکار ہیں تاکہ یہ ادارے نئے چیلنجز کو حل کرنے کے قابل ہوسکیں۔ گورننگ باڈیز اور مینجمنٹ بورڈز میں آزاد اور تجربہ کار ماہرین کو شامل کرنا بھی فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

مثال کے طور پر بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ایک نگران کمیٹی بنائے جانے کی گنجائش موجود ہے لیکن 1979ء میں اس کے قیام کے بعد سے اس کمیٹی کو شاذ ہی نوٹیفائی کیا گیا ہے۔ جب یہ کمیٹی تھی تو اس نے اتھارٹی کے کاموں کا بہت معروضی تجزیہ کیا جس کے نتیجے میں کئی اصلاحات لائی گئیں۔

اس قسم کے نگران ادارے بنانے کے لیے حکومت کے مصمم ارادے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ شہری انتظام میں پیدا ہونے والے اس بگاڑ کو روکا جاسکے جس کی جھلک ہمارے شہری معاملات میں عام طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔


یہ مضمون 4 ستمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں