جے آئی ٹی نے عمران خان سمیت 900 سے زائد افراد کو سنگین جرائم میں ملوث قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 29 ستمبر 2023
لاہور پولیس کے مطابق پی ٹی آئی کے چیئرمین اور 900 سے زائد پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو سنگین جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
لاہور پولیس کے مطابق پی ٹی آئی کے چیئرمین اور 900 سے زائد پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو سنگین جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

مئی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کی کرپشن کیس کے سلسلے میں گرفتاری کے بعد پیش آنے پرتشدد واقعات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں نے سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے دیگر اہم رہنماؤں سمیت 900 سے زائد کارکنوں کو درجن بھر مقدمات میں مرکزی ملزمان قرار دے کر چالان (چارج شیٹس) انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع کرادیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور پولیس کے مطابق 9 مئی کے مقدمات میں نامزد چیئرمین پی ٹی آئی اور 900 سے زائد پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کو سنگین جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔

ڈی آئی جی آپریشنز عمران کشور نے ڈان کو بتایا کہ ہم نے ان افراد کو انسداد دہشت گردی ایکٹ اور دیگر الزامات کے تحت لاہور کے مختلف تھانوں میں مجموعی طور پر درج 14 مقدمات میں سے 12 میں مرکزی ملزم قرار دیا ہے اور چالان اے ٹی سی میں جمع کرا دیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے نامزد افراد جن میں عمران خان، سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ، سابق صوبائی وزرا میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد اور دیگر کے خلاف ’کافی شواہد‘ حاصل کرلیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مقدمات میں فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ، صنم جاوید اور پی ٹی آئی کے کچھ دیگر کارکنان کو بھی نامزد کیا گیا ہے، پولیس افسر نے کہا کہ ان ملزمان کے خلاف شواہد پیمرا، وفاقی تحقیقاتی ادارے اور فوجی حکام سے موصول ہونے والی رپورٹس پر مبنی ہیں۔

ڈی آئی جی کے مطابق صوبائی دارالحکومت کے مختلف تھانوں میں درج درجن سے زائد مقدمات میں ڈیجیٹل اور فوٹوگرامیٹرک شواہد کے ساتھ ساتھ ملزمان کے وائس میسجز سے بھی ان پر لگائے گئے الزامات کی تصدیق ہوگئی۔

درج مقدمات کے مطابق پی ٹی آئی کارکنان کی بڑی تعداد نے لاہور میں فوجی تنصیبات، پولیس کی گاڑیوں، دیگر سرکاری و نجی املاک پر حملہ کیا، لاہور کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس)، عسکری ٹاور اور شادمان تھانے میں توڑ پھوڑ کے ویڈیو کلپس میڈیا پر منظر عام پر آنے کے بعد معاملہ توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔

ایک سوال پر پولیس افسر نے بتایا کہ لاہور کے مختلف تھانوں میں درج ایف آئی آرز میں 900 سے زائد ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے پُرتشدد حملوں سے متعلق دو دیگر کیسز میں بھی تحقیقات جاری ہیں اور تحقیقاتی ٹیمیں جلد از جلد ان کیسز کا چالان بھی مکمل کرکے جمع کرائیں گی۔

چالان اے ٹی سی میں جمع کرا دیے گئے

پراسیکیوشن نے پی ٹی آئی رہنماؤں اور سیکڑوں کارکنوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چالان جمع کرا دیے، جس میں انہیں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملے سمیت 9 مئی کے فسادات سے متعلق متعدد مقدمات میں مجرم قرار دیا گیا ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر سید فرہاد علی شاہ نے ڈان کو بتایا کہ چالان ان مشتبہ افراد کے جمع کیے گئے تھے، جن سے پولیس نے تفتیش کی، انہیں ٹرائل کورٹ میں پیش کیا گیا اور پھر جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف چالان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحقیقات تاحال نامکمل ہیں، فرہاد شاہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کا 9 مئی کے کسی بھی کیس میں جسمانی ریمانڈ نہیں لیا گیا اور نہ ہی دیگر مقدمات میں گرفتاری کی وجہ سے عدالت نے انہیں تاحال طلب کیا۔

عدالت میں جمع کرائے گئے چالان میں استغاثہ نے الزام لگایا کہ 9 مئی کو ملزمان کی قیادت میں پُرتشدد مظاہرے ریاست کے خلاف منظم سازش کا حصہ تھے، اس میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی تقاریر سمیت 400 سے زائد ویڈیو شواہد نے ثابت کیا کہ کینٹونمنٹ ایریاز میں فوجی تنصیبات اور احاطے میں حملے قبل سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

تمام مقدمات میں بغاوت اور ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزامات شامل کیے گئے ہیں، چالان کے ساتھ ایف آئی اے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس بھی منسلک کی گئی ہیں، صرف جناح ہاؤس حملہ کیس میں پارٹی رہنماؤں سمیت 368 ملزمان کے چالان جمع کرائے جا چکے ہیں۔

جناح ہاؤس کیس کا چالان 3 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور استغاثہ کے 210 گواہوں کی فہرست مرتب کی گئی ہے، عسکری ٹاور کیس میں 65 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے اور الزامات کے ساتھ 55 گواہوں کی فہرست جمع کرائی گئی ہے۔

گلبرگ تھانے میں درج مقدمے میں 5 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے اور استغاثہ نے 36 گواہوں کی فہرست جمع کرائی ہے۔

پیمرا کی عمران خان کی کوریج پر پابندی

دوسری جانب، سندھ ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین عمران خان کی کوریج پر پابندی کے خلاف درخواست پر وزارت اطلاعات اور پیمرا کو نوٹس جاری کردیے۔

محمد طہامس علی خان نے یکم اگست کو سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، ابتدائی سماعت کے بعد جسٹس محمد عبدالرحمٰن نے مدعا علیہان کو 16 اکتوبر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کے ساتھ نوٹس بھیجا تھا۔

مدعی کی نمائندگی کرتے ہوئے بیرسٹر علی طاہر نے استدلال کیا کہ پابندی ان کے مؤکل کے وابستگی، اظہار رائے اور معلومات کے حق کے آرٹیکل 19 اور 19- اے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدالتوں کے متعدد احکام کی خلاف ورزی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں