تین اہم جماعتوں کا نگران وزیراعلیٰ سندھ پر اظہار عدم اعتماد، بلدیاتی کونسلز معطل کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2023
علامہ راشد سومرو نے بتایا کہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کا کوئی متبادل نہیں ہے، جو بالکل غلط ہے — فوٹو: ڈان نیوز
علامہ راشد سومرو نے بتایا کہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کا کوئی متبادل نہیں ہے، جو بالکل غلط ہے — فوٹو: ڈان نیوز

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم۔پی)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے ایک پلیٹ فارم سے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ’جدوجہد‘ جاری رکھنے کا عزم کیا تاکہ اگلے عام انتخابات میں سندھ میں اس کا متبادل بن سکیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تینوں جماعتوں کے رہنماؤں نے کراچی میں ملاقات کی اور صوبے میں مجموعی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

بعد ازاں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے صوبے بھر میں عام انتخابات تک پیپلز پارٹی کے زیر اثر بلدیاتی حکومتی نظام کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور جی ڈی اے نے نگران وزیر اعلیٰ کے لیے ریٹائرڈ جسٹس مقبول باقر کے نام پر اتفاق کیا تھا، لیکن اب ان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس پیپلزپارٹی کا سیکریٹریٹ بن گیا ہے۔

جی ڈی اے کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر صفدر عباسی، ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار اور جے یو آئی (ف) کے علامہ راشد محمود سومرو نے پیپلزپارٹی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی جماعت جس نے گزشتہ 15 برس صوبے میں حکومت کی، اسے دوبارہ ’سندھ کارڈ‘ کھیلنے نہیں دیں گے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ پیپلزپارٹی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وہ مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہوں گے، ان کے مطابق اس جماعت نے 15 سالہ اقتدار میں سندھ کو لوٹا۔

ان کا کہنا تھا کہ تینوں جماعتوں نے صوبے میں وسیع تر اتحاد کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور قوم پرست جماعتوں سے بات چیت کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

انہوں نے صوبائی الیکشن کمشنر کو ہٹانے اور نگران صوبائی حکومت کی جانب سے تعینات کردہ سینئر بیورکریٹس کے تبادلے کا بھی مطالبہ کیا، جن کے مطابق یہ پیپلز پارٹی کی ’بی‘ ٹیم بنی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر صفدر عباسی نے کہا کہ عام انتخابات اُسی وقت صاف اور پُرامن ہوسکیں گے، جب میئرز اور مقامی کونسلز کو انتخابات تک معطل کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو امید تھی کہ نگران حکومت نیوٹرل رہے گی اور اپنی آئینی ضروریات کو پورا کرے گی، لیکن بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ نگران حکومت بشمول وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کی بی ٹیم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہی افسران وزیراعلیٰ ہاؤس میں بیٹھے ہیں اور وہ پیپلزپارٹی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر صورتحال تبدیل نہیں ہوئی تو ہم ان افسران کے نام لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر صفدر عباسی نے کہا کہ اگر ان شکایات کو دور نہ کیا گیا تو یقین ہے کہ اگلے انتخابات متنازع ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعلیٰ کی جانبداری کا ایک ثبوت یہ ہے کہ قابل سابق بیوروکریٹ یونس ڈھاگا سے محکمہ خزانہ کا اہم قلمدان واپس لے لیا گیا۔

اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے سابق وزرا اور میئر مرتضیٰ وہاب اکثر وزیراعلیٰ ہاؤس کا دورہ کرتے ہیں، یہ وزیراعلیٰ ہاؤس نہیں بلکہ اب یہ پیپلزپارٹی کا سیکریٹریٹ بن گیا ہے۔

علامہ راشد سومرو نے بتایا کہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ صوبے میں پیپلزپارٹی کا کوئی متبادل نہیں ہے، جو بالکل غلط ہے۔

جی ڈی اے، ایم کیو ایم پاکستان اور جے یو آئی (ف) نے صوبے میں پیپلز پارٹی کا متبادل بننے کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا اعلان کیا۔

رہنماؤں نے اعلان کیا کہ تینوں جماعتیں جے یو آئی (ف) کی قیادت میں اکتوبر میں پُرامن مارچ کی حمایت کرتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں