وکیل نے عمران خان، شاہ محمود قریشی کےخلاف سائفر کیس کی ان کیمرا سماعت ’غیر آئینی‘ قرار دے دی

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2023
دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کیا گیا — فوٹو: عمر برنی
دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کیا گیا — فوٹو: عمر برنی

آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت خصوصی عدالت نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت، معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہونے کے باعث بغیر کارروائی ملتوی کردی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی ان کیمرا سماعت کی۔

دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے ٹرائل آگے نہ بڑھانے کی درخواست دائر کی اور مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس کی ان کیمرا سماعت کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے۔

انہوں نے استدعا کی کہ کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک ملتوی کیا جائے۔

عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سائفر کیس کی سماعت بغیر کارروائی 9 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

سماعت کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے میڈیا کو بتایا کہ آج سماعت روک دی گئی ہے، آج ہم نے درخواست دی کہ معاملہ ملتوی ہونا چاہیے، چالان کی نقول نہیں لے سکتے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے، فیصلے کا انتظار کیا جائے، جب معاملہ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے تو ضلعی عدالت میں لانا صحیح نہیں ہے۔

وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اس کیس کی سماعت ان کیمرا نہیں ہو سکتی، چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کو اس کیس میں خفیہ رکھا گیا اور اب ٹرائل کو بھی خفیہ رکھا جارہا ہے، اگر ٹرائل کیا ہی جانا ہے تو عوام کے سامنے کیا جانا چاہیے۔

گزشتہ روز وزارت قانون و انصاف نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے جیل میں ٹرائل کا نوٹی فکیشن جاری کردیا تھا جب کہ پی ٹی آئی نے نوٹی فکیشن کو مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت اوپن کورٹ میں کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور چیف جسٹس آف پاکستان پر زور دیا کہ وہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو منصفانہ ٹرائل کے بنیادی آئینی حق سے محروم کر کے عدالت کے ذریعے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی کوششوں کا نوٹس لیں۔

وزارت قانون کے نوٹی فکیشن میں جج اسپیشل کورٹ (آفیشل سیکرٹس ایکٹ) کی استدعا کا حوالہ دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ قانون و انصاف ڈویژن کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملزم کے جیل میں ٹرائل پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ جیل میں ٹرائل متعلقہ اداروں (داخلہ ڈویژن) کی جانب سے ان کی (عمران خان کی) سیکیورٹی کلیئرنس دیے جانے تک جاری رہے گا۔

واضح رہے کہ ایک روز قبل جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت دی تھی کہ وہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس کی سماعت کے سلسلے میں عدالت میں پیش کریں۔

یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا۔

ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی 10 اکتوبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی گزشتہ سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی 26 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں