پی ٹی آئی کے انتخابی نشان، عمران خان کے خلاف درخواستوں پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ محفوظ

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2023
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ پچھلی حکومت میں رہنے والے غیرجانبدار نہ ہوں—فائل فوٹو: اے پی پی
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ پچھلی حکومت میں رہنے والے غیرجانبدار نہ ہوں—فائل فوٹو: اے پی پی

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ کے عہدے سے ہٹانے اور آئندہ انتخابات کے لیے ’بلے‘ کو پارٹی نشان کے طور پر مختص کرنے کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلے محفوظ کر لیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

درخواست گزار خالد محمود خان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو توشہ خانہ کیس میں سزا سنائی گئی ہے، انہوں نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ کے اس حکم کا حوالہ دیا، جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو پاناما پیپرز کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد پارٹی صدر کے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔

سندھ سے الیکشن کمیشن کے رکن نثار احمد درانی نے سوال کیا کہ اس معاملے پر الیکشن ایکٹ کیا کہتا ہے؟ وکیل نے کہا کہ ’پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ‘ سزا یافتہ شخصیات کو پارٹی عہدہ رکھنے سے روکتا ہے، الیکشن ایکٹ میں ایسی کوئی شق نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن نے استفسار کیا کہ سزا کے خلاف عمران خان کی اپیل ہائی کورٹ نے قبول کر لی تو ممکنہ نتائج کیا ہوں گے؟ وکیل نے جواب دیا کہ پھر عمران خان کو پارٹی سربراہ کے طور پر بحال کر دیا جائے گا۔

چیف الیکشن کمشنر نے عمران خان کے کیس اور نواز شریف کے کیس میں فرق سے متعلق سوال کیا، وکیل نے وضاحت کی کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا، جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ الیکشن کمیشن اور ٹرائل کورٹ نے جاری کیا تھا۔

بعدازاں، الیکشن کمیشن نے عمران خان کو پارٹی چیئرمین شپ سے ہٹانے کی درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کو اپنے اثاثوں سے متعلق بیان حلفی میں غیر ملکی زعما سے ملنے والے اور توشہ خانہ سے حاصل کیے گئے تحائف کا ذکر نہ کرنے پر بطور رکن قومی اسمبلی نااہل قرار دے دیا تھا۔

5 اگست کو ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو اسی کیس میں مجرم قرار دیا تو الیکشن کمیشن نے انہیں رکن قومی اسمبلی کے عہدے سے ہٹانے اور 5 سال کے لیے نااہل قرار دینے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا۔

پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کے خلاف درخواست

علاوہ ازیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لینے سے متعلق درخواست پر بھی فیصلہ محفوظ کرلیا۔

استحکام پاکستان پارٹی کے وکیل عون چوہدری بینچ کے روبرو پیش ہوئے اور اصرار کیا کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان الاٹ نہ کیا جائے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ پی ٹی آئی کو پہلے ہی بلے کا نشان الاٹ کیا جا چکا ہے، اس پر وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کو دوبارہ وہی نشان الاٹ نہ کیا جائے۔

وکیل کو بتایا گیا کہ انتخابی نشان سے متعلق کیس پہلے ہی الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے، وکلا نے دونوں کیسز کو منسلک کرنے کی تجویز دی۔

ممنوعہ فنڈنگ

بینچ نے ایک نئی درخواست کی ابتدائی سماعت بھی کی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ پی ٹی آئی اب بھی ممنوعہ فنڈنگ حاصل کر رہی ہے۔

درخواست گزار خالد محمود کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کو اب بھی ممنوعہ ذرائع سے فنڈز مل رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے شواہد مانگے تو وکیل نے وقت مانگا اور کہا کہ الیکشن کمیشن خود اس معاملے کی انکوائری کر سکتا ہے، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم آپ کی خواہش پر انکوائری نہیں کر سکتے، بعدازاں درخواست گزار کو شواہد اکٹھے کرنے کے لیے 3 ہفتے کا وقت دے دیا گیا۔

الیکشن کمیشن نے عزیزالدین کاکاخیل ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست پر بھی سماعت کی، جس میں نگران وفاقی کابینہ کے ’جانبدار‘ اراکین اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ وزیراعظم کے سیکریٹری توقیر شاہ سابق وزیراعظم شہباز شریف کے سیکریٹری تھے، بینچ نے استفسار کیا کہ وہ ریٹائرڈ ہیں یا حاضر سروس افسر؟ درخواست گزار نے جواب دیا کہ انہیں یہ عہدہ ریٹائر ہونے کے بعد دیا گیا۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ وہ ماضی میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور اب بھی ان کی خدمات درکار ہیں، اس پر درخواست گزار نے استفسار کیا کہ خدانخواستہ آج اگر وہ وفات پاگئے تو کیا اس عہدے کے لیے اُن کی جگہ کوئی اور بندہ نہیں ہوگا؟

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ پچھلی حکومت میں رہنے والے غیرجانبدار نہ ہوں۔

دریں اثنا، بینچ نے دلائل سننے کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔

واضح رہے کہ درخواست میں انوار الحق کاکڑ، فواد حسن فواد، احد چیمہ اور ڈاکٹر توقیر حسین شاہ کا خاص طور پر تذکرہ کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کی استدعا کی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں