عدالتیں خلاف قانون ریلیف نہیں دے سکتیں، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2023
جسٹس اطہر من اللہ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان تین رکنی بینچ کا حصہ تھے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس اطہر من اللہ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان تین رکنی بینچ کا حصہ تھے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ عدلیہ خلاف قانون کوئی ریلیف نہیں دے سکتیں اور نہ ہی کسی مدعی کو وہ حق دے سکتی ہیں جس کا وہ قانون کے تحت حقدار نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے تحریر کردہ فیصلے میں میڈیکل طلبہ کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بلاشبہ ہر شہری کو کوئی بھی پیشہ یا تجارت منتخب کرنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ حق مطلق نہیں ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ، چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے ان طلبہ کی اپیل پر سماعت کی جو چار کوششوں میں اپنے پیشہ ورانہ امتحانات کلیئر کرنے میں ناکام رہنے کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے نااہل ہوگئے۔

نائلہ خان، سندس اور ریما ناز نے 12 فروری 2020 کو پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے جاری کیے گئے اس متفقہ حکم کو چیلنج کیا تھا جس نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) کے رجسٹرڈ طلبہ کی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ طبی اداروں کے معاملات اور طلبہ کی میڈیکل تعلیم حاصل کرنے کی اہلیت کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل آرڈیننس 1962 کے تحت قائم کردہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ذریعے منظم کیا گیا ہے، آرڈیننس کے سیکشن 33 کے تحت دیے گئے اختیارات کے مطابق پی ایم اینڈ ڈی سی نے ایم بی بی ایس/بی ڈی ایس کورسز اور ہاؤس جاب/انٹرن شپ کی شرائط طے کی ہیں۔

قواعد و ضوابط واضح طور پر میڈیکل اسٹڈیز جاری رکھنے کے حق کے بارے میں معیار کا تعین کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جو طالب علم چار مرتبہ کی کوشش میں فرسٹ یا سیکنڈ پروفیسر امتحان کلیئر کرنے میں ناکام رہتا ہے تو وہ مزید تعلیم جاری رکھنے کا اہل نہیں ہوگا۔

ایسے طلبہ نئے طالب علم کے طور پر داخلہ لینے کے لیے بھی نااہل ہو جائیں گے۔

تمام تسلیم شدہ طبی ادارے اور کے ایم یو ان قوانین کے پابند ہیں، لہٰذا اہلیت کے معیار کو یونیورسٹی نے اپنے ضوابط میں شامل کیا۔

درخواست گزار چار کوششوں میں امتحانات پاس کرنے میں ناکام رہے، اس طرح وہ ضوابط کے تحت اپنی میڈیکل تعلیم جاری رکھنے کے لیے نااہل ہو گئے، اس سے قبل کہ کے ایم یو کی طرف سے ان کی رجسٹریشنز منسوخ کی جاتیں، درخواست گزاروں نے سول عدالتوں میں مقدمہ کردیا۔

حکم امتناع میں کے ایم یو کو ہدایت کی گئی کہ وہ درخواست گزاروں کو دوبارہ امتحانات دینے کی اجازت دے، اس طرح وہ ضابطوں کی روشنی میں اہلیت سے محروم ہونے کے باوجود اپنی میڈیکل تعلیم جاری رکھنے کے قابل ہوئے۔

کے ایم یو نے بعد ازاں درخواست گزاروں کی رجسٹریشن کی منسوخی کے نوٹی فکیشن جاری کیے جنہیں پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا جہاں انہیں مسترد کردیا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ عدالتیں پالیسیوں، نظم و ضبط اور تعلیمی اداروں کے دیگر تعلیمی امور سے متعلق معاملات میں انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ تجارت یا پیشے کو ریگولیٹ کرنے والی اتھارٹی لوگوں کے مفادات اور فلاح و بہبود کے تحفظ کے حق کے استعمال کے تناظر میں کم سے کم معیارات طے کر سکتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ جب متعلقہ قوانین میں کوئی گنجائش نہیں ہے تو ہمدردی اور سختی قابل غور و فکر نہیں ہوسکتی، اس میں مزید کہا گیا کہ درخواست گزار نااہل ہوگئے، ان کا تعلیم حاصل کرنے کا حق اس وقت ختم ہوگیا جب وہ چار مواقع ملنے کے باوجود امتحانات پاس کرنے میں ناکام ہوگئے۔

تبصرے (0) بند ہیں