مسلم لیگ (ن) سے مشترکہ حکمت عملی پر تعاون کی بات ہوئی ہے، خالد مقبول صدیقی

09 نومبر 2023
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ مسلم لیگ کے اکابرین یہاں آئیں گے اور ان سے بات ہوگی—فوٹو: ڈان نیوز
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ مسلم لیگ کے اکابرین یہاں آئیں گے اور ان سے بات ہوگی—فوٹو: ڈان نیوز

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ انتخابی اتحاد نہیں ہوا تاہم مشترکہ حکمت عملی کے حوالے سے تعاون کی بات ہوئی ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہ زیب‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے کہا کہ مشترکہ اعلامیے میں انتخابی اتحاد کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف طویل عرصے بعد ملک واپس آئے تھے اور اس سے قبل ہم نے پاکستان کے تمام سیاسی اکابرین سے ہماری ملاقاتیں رہی ہیں، ان کے ساتھ ماضی رہا ہے، ہماری ملاقاتیں رہی ہیں، اچھے اور برے ادوار بھی دیکھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملاقات میں انتخابات پر بھی بات ہوئی ہے لیکن انتخابی اتحاد کے بجائے اس سے اتفاق رائے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں مل کر نہ صرف صاف اور شفاف انتخابات کی کوششوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے بلکہ پاکستان کی معیشت اور قومی سطح پر اتفاق رائے ہموار کرنی کی کوشش ہونی چاہیے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وزیراعلیٰ اور وزارتوں پر بات کا کوئی مرحلہ نہیں ہے اور شاید ایم کیو ایم اس دفعہ معاہدوں میں اس طرح کے معاملات نہ رکھے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کو اس قابل بنایا جاسکے کہ وہ پاکستانیوں اور اپنی حفاظت کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ بڑی اچھی ملاقات ہوئی، پاکستان جس طرح کے حالات کا شکار ہے اور ہر طرح کے بحران ہیں، اس کے لیے مشترکہ حکمت عملی کے حوالے سے تعاون کی بات ہوئی ہے، یہ تعاون کتنا وسیع ہوتا ہے اس پر بات کی جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نہ تو مسلم لیگ (ن) نے بات کی ہے کہ ہم مل کر انتخابات لڑیں اور نہ ہی ہماری طرف سے بات ہوئی ہے، نہ یہ بات طے ہوئی کہ حکومت بناتے وقت ہمارا کتنا حصہ ہوگا، وزیراعلیٰ کس کا ہوا یہ باتیں بہت آگے کی ہے۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم انتخابی اتحاد نہیں کرتی، ہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوتی رہی ہے اور ہوسکتی ہے لیکن اس کا بھی اس وقت طے نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے اکابرین ایک دو روز میں یہاں آئیں گے اور ان سے مزید بات چیت ہوگی لیکن مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے ہم نے بات کی تھی۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور اس کے امکانات ہیں اور بات چیت ہوئی تو اس کے امکانات موجود رہیں گے کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف سے ملاقات ہماری بھی خواہش تھی اور ان کی طرف سے بھی دعوت آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایم کیو ایم کی صفوں میں کوئی مایوسی نہیں، گزشتہ چند برسوں میں ہم پر جن کی وجہ سے پابندیاں لگیں وہ عناصر اب نہیں رہے۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے بلدیاتی انتخابات سے قبل بھی نگران میئر لایا جائے اور ایڈمنسٹریٹرز سے حکومت نہیں چلائی جائے۔

خیال رہے کہ 7 نومبر کو لاہور میں ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سمیت دیگر ہنماؤں سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم پاکستان کے مابین یہ طے پایا ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں مل کر حصہ لیں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’دونوں جماعتوں کے درمیان یہ خواہش بھی موجود رہی ہے کہ انتخابات میں مل کر حصہ لیں، یہ بھی طے پایا ہے کہ مختلف قومی، معاشی امور، سیاسی، آئینی اور قانونی معاملات پر بھی آپس میں مشاورت بھی کی جائے گی اور اس ضمن میں دونوں جانب سے کمیٹیوں کا اعلان بھی کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ باقی سیاسی قوتوں سے بھی وسیع تر قومی مفاد میں اور مختلف امور پر بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جائیں گے اور بات چیت کی جائے گی، مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی سے ایم کیو ایم کی تعلقات کی لمبی تاریخ ہے، سندھ میں جے یو آئی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی فنکشنل لیگ سے بھی بات کریں گے۔

بعد ازاں ایم کیو ایم پاکستان نے وضاحت کی تھی کہ انتخابی اتحاد نہیں ہوا ہے، دونوں جماعتیں 8 فروری کو اپنے اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑیں گی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق نے کہا تھا کہ جہاں ضرورت ہوگی وہاں ہم یقینی طور پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے اور الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) سندھ میں 4 جماعتی اتحاد کی تشکیل کا بھی ارادہ رکھتی ہے، دیگر ممکنہ اتحادیوں میں ایم کیو ایم، جے یو آئی (ف) اور پیر پگارا کی زیرِ قیادت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) شامل ہیں، تاہم پیپلزپارٹی اس اقدام کے پیچھے ’کسی اور‘ کا ہاتھ دیکھ رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں