’مقصد الیکشن سے روکنا ہے، ’فراڈ کیس میں فواد چوہدری کا جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2023
محکمہ اینٹی کرپشن نے فواد چوہدری کے جوڈیشل ریمانڈ کو ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی کی عدالت میں چیلنج کیا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
محکمہ اینٹی کرپشن نے فواد چوہدری کے جوڈیشل ریمانڈ کو ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی کی عدالت میں چیلنج کیا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

راولپنڈی کی اینٹی کرپشن عدالت نے 35 لاکھ روپے کے بدعنوانی کیس میں سابق وفاقی فواد چوہدری کا مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا مسترد کردی۔

محکمہ اینٹی کرپشن نے فواد چوہدری کے جوڈیشل ریمانڈ کو ایڈیشنل سیشن جج کی راولپنڈی کی عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ سول جج نے جسمانی ریمانڈ کے بجائے جوڈیشل ریمانڈ جیل بھیجنے کا غلط فیصلہ کیا۔

سول جج کا جیل بھیجنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر پانچ دن کا مزید جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ ایڈیشنل سیشن جج نے اینٹی کرپشن لیگل ٹیم کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بعد ازاں ایڈیشنل سیشن جج سہیل انجم نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فواد چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھجوانے کا مجسٹریٹ کا فیصلہ درست قرار دیتے ویتے ہوئے ریمارکس دیے کہ دو دن جسمانی ریمانڈ رہا، یہ کافی تھا۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن ہوئے تو وہ ضرور حصہ لیں گے اور بھرپور انتخابی مہم چلائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف ریڑھیاں لگوانے کے لیے پندرہ ہزار روپے رشوت لینے کا بھی مقدمہ درج کرلیا گیا، یوریا بوری کھاد کا مقدمہ بھی درج ہوگیا، ان مقدمات کا مقصد انہیں الیکشن سے روکنا ہے۔

واضح رہے کہ 11 دسمبر کو راولپنڈی کی اینٹی کرپشن عدالت نے 35 لاکھ روپے کے بدعنوانی کیس میں فواد چوہدری کے 7 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

اس سے ایک روز قبل روز (10 دسمبر) کو فواد چوہدری کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 4 نومبر کو فواد چوہدری کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا تھا، رہنما استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری نے ’ڈان نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے گرفتاری کی تصدیق کی تھی۔

5 نومبر کو سابق وفاقی وزیر کو ڈیوٹی مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کیا گیا، فواد چوہدری کو ظہیر نامی شخص کی جانب سے درج ایف آئی آر میں گرفتار کیا گیا تھا، ایف آئی آر عدالت میں پڑھ کر سنائی گئی۔

پولیس نے ایف آئی آر کا متن پڑھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ فواد چوہدری نے بطور وفاقی وزیر نوکری کا جھانسہ دے کر 50 لاکھ روپے وصول کیے تھے تاہم فواد چوہدری نے نوکری کا وعدہ پورا نہ کیا، شہری نے جب پیسوں کی واپسی کا تقاضا کیا تو فواد چوہدری نے شہری کو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔

پولیس نے عدالت سے 5 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی تھی، تاہم عدالت نے فواد چوہدری کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

7 نومبر کو اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ میں ایک دن کی توسیع کردی تھی۔

خیال رہے کہ فواد چوہدری کی گرفتاری ایسے وقت میں عمل میں آئی تھی جب سابق اسپیکر قومی اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اسد قیصر کو گرفتار کیے جانے کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

قبل ازیں رواں برس 25 جنوری کو فواد چوہدری کو اسلام آباد پولیس نے لاہور سے گرفتار کیا تھا، اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ ’فواد چوہدری نے آئینی اداروں کے خلاف شر انگیزی پیدا کرنے اور لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، مقدمے پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے‘۔

تاہم یکم فروری کو فواد چوہدری کو ضمانت منظور ہونے کے بعد اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔

9 مئی کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو قومی احتساب بیورو نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیرا ملٹری رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کرلیا تھا جس کے بعد ملک میں احتجاج کیا گیا اور اس دوران توڑ پھوڑ اور پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔

احتجاج کے بعد فواد چوہدری سمیت پی ٹی آئی کے کم از کم 13 سینئر رہنماؤں کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا۔

رہائی کے بعد 24 مئی کو فواد چوہدری نے پی ٹی آئی چھوڑ کر سابق وزیراعظم عمران خان سے اپنی راہیں جدا کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

تاہم جون میں فواد چوہدری نے جہانگیر خان ترین کی قائم کردہ نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں