’نومنتخب پاکستانی حکومت کو دہشت گردی، تباہ معیشت کی بحالی کا چیلنج درپیش ہوگا‘

اپ ڈیٹ 05 فروری 2024
امریکا سمیت عالمی برادری اس طرح کی پیش رفت پر گہری نظر رکھتی ہے جب کہ انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکا سمیت عالمی برادری اس طرح کی پیش رفت پر گہری نظر رکھتی ہے جب کہ انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکی تھنک ٹینکس نے اپنی انتخابی رپورٹس میں پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل ملک کے سیاسی منظر نامے کو انتہائی پیچیدہ قرار دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تھنک ٹینکس نے قرار دیا کہ سیاسی جبر، عسکریت پسندوں کی دھمکیوں اور فوجی اثر و رسوخ نے جمہوری عمل پر منفی اثر ڈالا ہے جس سے انتخابات کی شفافیت اور پاکستان کے جمہوری مستقبل پر اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سوالات اٹھ گئے ہیں۔

نواز شریف کے خلاف مقدمات سے متعلق قانونی تعطل کے ساتھ جلاوطنی سے وطن واپس لوٹنے والے سابق وزیر اعظم کے بارے میں فوج کی مبینہ جانبداری انتخابات میں ہیرا پھیری کے شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے جس سے آئندہ انتخابات کے منصفانہ ہونے کے بارے میں خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں۔

امریکا سمیت عالمی برادری اس طرح کی پیش رفت پر گہری نظر رکھتی ہے جب کہ انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔

امریکی تھنک ٹینکس نے عمران خان کی پارٹی، پی ٹی آئی کے سیکڑوں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے اور انہیں مختلف شکلوں میں ہراساں کیے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

آرمڈ کنفلیکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ (اے سی ایل ای ڈی) نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں سیاسی جبر اور عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے پر روشنی ڈالی ہے، رپورٹ میں معاشی بدحالی، سرحدی کشیدگی اور بڑھتی عسکریت پسندی کی نشاندہی کی گئی ہے۔

نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے ایک اور سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا پر حکومتی دباؤ اور حملوں نے صحافیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں میں خوف کا ماحول پیدا کیا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ سیلف سنسرشپ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ اتھارٹیز نے ذرائع ابلاغ پر دباؤ ڈالا یا انہیں دھمکی دی گئی کہ وہ سرکاری اداروں یا عدلیہ پر تنقید نہ کریں۔

یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) میں ساؤتھ ایشیا پروگرامز کی ڈائریکٹر تمنا سالک الدین کا کہنا ہے کہ انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب کہ پاکستان دہشت گردی اور تباہی کے دہانے پر کھڑی معیشت کے 2 سنگین بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نو منتخب سویلین حکومت سے توقع کی جائے گی کہ وہ برباد معیشت کو بحال کرے گی اور وہ ممکنہ طور پر 2024 کے موسم بہار تک آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے حصول کے لیے مذاکرات کرے گی۔

جب امریکی کونسل برائے خارجہ تعلقات میں تعینات نوح برمن اور کلارا فونگ سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی توقع ہے تو انہوں نے کونسل کے لیے لکھے گئے اپنے مشترکہ نوٹ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ماہرین کہتے ہیں اس کا امکان نہیں ہے‘۔

ان کی رپورٹ میں عالمی جمہوریت پر نظر رکھنے والے ادارے ’فریڈم ہاؤس‘ کا حوالہ بھی شامل ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کا انتخابی عمل ’جزوی آزاد‘ تصور کیا جاتا ہے، اس میں باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں، ملک فوجی اور منتخب کردہ حکومت کے ’ہائبرڈ رول‘ کے تحت چلایا جاتا ہے اور آج تک اس کے کسی بھی منتخب وزیر اعظم نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔

تھنک ٹینکس نے خبردار کیا کہ نواز شریف کی زیرقیادت حکومت جسے فوجی پراکسی سمجھا جائے، بننے کا امکان علاقائی جغرافیائی سیاست میں بے یقینی کی صورتحال ظاہر کرتا ہے، روپے کی گرتی قدر، مہنگائی اور آئی ایم ایف کے ساتھ کمزور تعلقات کی وجہ سے معاشی بحران انتخابی صورتحال کی پیچیدگیوں کو بڑھاتا ہے اور جنوبی ایشیا کے وسیع خطے کو متاثر کر سکتا ہے۔

تھنک ٹینک نے نوٹ کیا کہ پاکستان کا اہم انتخابی مرحلہ سیاسی جبر، عسکریت پسندوں کی دھمکیوں اور فوجی اثر و رسوخ کے پیچیدہ عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں