حکومت نے رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ (جولائی تا اپریل) کے دوران بُلند شرح سود پر 57 کھرب 36 ارب روپے کا ریکارڈ قرضہ لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری حالیہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کرنسی کی لاگت بُلند ہونے کے باوجود موجودہ حکومت بینکوں سے بھاری قرضے لے رہی ہے۔

مرکزی بینک نے رپورٹ کیا کہ حکومت نے مالی سال 2024 میں جولائی تا اپریل کے دوران 57 کھرب 36 ارب روپے کے قرضے لیے جبکہ رواں مالی سال جولائی تا مارچ کے دوران سود کی مد میں 55 کھرب 17 ارب روپے کی ادائیگی کی۔

اس سے صورتحال کی سنگینی کا پتا چلتا ہے، رواں مالی سال کے دوران قرضہ صرف موجودہ حکومت نہیں بلکہ نگران حکومت نے بھی لیا، وہ بھی بھاری قرضے لینے کی ذمہ دار ہے۔

30 اپریل کو ٹریژری بلوں کی آخری نیلامی میں، 3، 6 اور 12 ماہ کے کاغذات کا اوسط منافع 21 فیصد تھا، قرضوں پر 21 فیصد کا منافع حقیقی طور پر قرضوں کا پھندا ہے، جس کے سبب حکومت سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے پر مجبور ہوتی ہے۔

اسٹیٹ بینک مہنگائی کے دباؤ کے خوف کے سبب شرح سود میں کمی کرنے سے قاصر ہے، جبکہ رواں مالی سال کے دوران منفی نمو یا انتہائی ناقص ترقی کی توقعات کو نظر انداز کر رہا ہے۔

مزید تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ رواں مالی سال کےابتدائی 9 ماہ کے دوران سود کی ادائیگی محصولات وصولی کے 76 فیصد کے برابر رہی، سود کی ادائیگی (55 کھرب 17 ارب روپے) مالی سال 2024 میں جولائی تا اپریل کے دوران لیے گئے قرضوں (57 کھرب 35 ارب روپے) کے تقریباً برابر رہی، یہ ایک سنگین صورتحال ہے کیونکہ سود کی رقم مجموعی آمدنی سے 56 فیصد سے زائد ہو چکی ہے۔

اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ مالی سال 2023 کے دوران قرضوں پر سود کی ادائیگی 59 کھرب 35 ارب روپے رہی، جس کا حجم گزشتہ مالی سال کے دوران 33 کھرب 31 ارب روپے رہا تھا، مالی سال 2023 میں جی ڈی پی کا حجم نمایاں طور پر بڑھ کر 846 کھرب 57 ارب روپے رہا، جو مالی سال کے دوران 666 کھرب 23 ارب روپے رہا تھا۔

مالی سال 2024 کے دوران قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے تقریباً 73 کھرب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے، اس کا حصہ 144 کھرب 60 ارب روپے کے مجموعی بجٹ میں 50.5 فیصد بنتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں