تقریباً 6 ماہ مکمل ہونے پر عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل غیر معمولی موازنہ کرتے ہوئے نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی مخلوط حکومت میں اپنے پیشرو اسحٰق ڈار کے مقابلے میں قرضوں کی بہتر منتظمیت کا دعویٰ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ اگرچہ حالات پہلے سے زیادہ مشکل تھے، تاہم نگران حکومت نے گزشتہ عرصے کے مقابلے میں کم قرضے لیے۔

نگران وزارت خزانہ کے دفتر سے جاری بیان میں شہباز شریف کی ساڑھے 6 مہینے (یکم فروری تا 16 اگست 2023) کی حکومت کا ساڑھے پانچ مہینے (17 اگست تا 31 جنوری 2024) تک موازنہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ پچھلے دور کے مقابلے میں نگران حکومت کی کارکردگی نمایاں طور پر بہتر رہی۔

اس میں بتایا گیا کہ نگران حکومت نے گزشتہ چند مہینوں کے دوران زیادہ تر قرضے لینے کی وجہ قرضوں کی ادائیگیاں تھیں، جس میں سود اور اصل رقم کی واپسی شامل تھی، اور نگران حکومت کی توجہ بنیادی طور پر مالیاتی مضبوطی پر رہی۔

وزارت خزانہ نے بتایا کہ جب نگران حکومت آئی تو بنیادی شرح سود 22 فیصد پر تھا، جو 1972 کے بعد سے بُلند ترین ہے، جبکہ گزشتہ ادوار کا اوسط پالیسی ریٹ 19.5 فیصد تھا۔

نگران وزارت خزانہ نے اس کا ذمہ دار اسحٰق ڈار کے زیرنگرانی پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر (پی اے او) امداد اللہ بوسال کی ’خراب کارکردگی‘ کو نہیں ٹھہرایا، اور نہ ہی شمشاد اختر کے ماتحت ان کی ’اچھی منتظمیت‘ کو سراہا گیا۔

بطور سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے اسحٰق ڈار کے ماتحت 4 مہینے جبکہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے ماتحت 6 مہینے خدمات انجام دیں، موازنہ صرف سینیٹر اسحٰق ڈار اور ڈاکٹر شمشاد اختر کے درمیان کیا گیا۔

بیان میں بتایا گیا کہ قلیل عرصے میں قرضوں کی محتاط منتظمیت کے ساتھ نگران حکومت نے مقامی قرضوں کی پروفائلنگ بہتر کرنے میں کامیاب رہی۔

مزید بتایا گیا کہ بینکوں سے سیکیورٹیز کے ذریعے کم قرض لینے پر توجہ دی گئی، نتیجتاً حکومتی بانڈز کے ذریعے نگران حکومت نے گزشتہ دور کے مقابلے میں 67 فیصد کم قرضے لیے۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اسحٰق ڈار کی زیرقیادت وزارت خزانہ نے سرکاری سیکیورٹیز کے ذریعے 19.862 ٹریلین روپے مالیت کے مقامی قرضوں لیے اور 14.031 ٹریلین روپے کی ادائیگی کی، اس طرح قرضے میں 5.831 ٹریلین روپے کا خالص اضافہ کیا۔

اس کے مقابلے میں ڈاکٹر شمشاد اختر کی زیرقیادت وزارت خزانہ نے اسی طرح کی بانڈز کے ذریعے 19.83 ٹریلین روپے کا مقامی قرضہ لیا، لیکن 17.934 ٹریلین روپے کی ادائیگی کی، اس طرح 1.896 ٹریلین روپے (67 فیصد) کی خالص کمی آئی۔

مقامی قرضے

نگران حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس نے مالیاتی خسارے کی فنانسنگ کے لیے ملکی قرضے کو طویل مدتی قرضوں کی سیکیورٹیز میں منتقل کر دیا، مزید کہا گیا کہ درمیانی سے طویل مدتی آلات میں سے بڑا قرضہ غیر معین ریٹ سیکیورٹیز سے رہا، جب کہ فکسڈ قرضے مرکزی بینک کے پالیسی ریٹ سے اوسطاً 3 سے 4 فیصد کم شرح پر لیے گئے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ اسحٰق ڈار کی زیرقیادت وزارت خزانہ نے 16 اگست سے قبل 6 ماہ میں پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز اور اجارا سکوک کے ذریعے 3.877 ٹریلین روپے کا قرضہ لیا تھا، اس کے مقابلے میں 1.353 ٹریلین روپے کی ادائیگی کی گئی، جو 2.524 ٹریلین روپے کے خالص قرضے کو ظاہر کرتا ہے۔

اس کے مقابلے میں ڈاکٹر شمشاد اختر کی زیرقیادت وزارت خزانہ نے سکوک اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کے ذریعے 6.017 ٹریلین روپے کا قرضہ لیا جبکہ 2.517 ٹریلین روپے کی ادائیگی کے بعد 3.5 ٹریلین روپے کا خالص قرضہ رہا۔

بیرونی قرضے

دوسری جانب، مجموعی سرکاری قرضوں میں بیرونی قرضوں کا حصہ جون 2023 کے آخر تک 38.3 فیصد تھا، جو دسمبر 2023 کے آخر میں کم ہو کر 36.7 فیصد رہ گیا۔

بیان میں بتایا گیا کہ نگران حکومت نے 30 کروڑ ڈالر کے خالص بیرونی قرضے لیے، جو کہ گزشتہ مدت میں لیے گئے تقریباً 3 ارب ڈالر سے کم ہیں، مزید برآں، کمرشل بینکوں اور عالمی کیپٹل منڈیوں سے مہنگے بیرونی قرضے نہیں لیے گئے۔

تفصیلات بتاتے ہوئے کہا گیا کہ گزشتہ حکومت کے آخری 6 مہینوں کے دوران غیر ملکی قرضوں کی آمد 8 ارب 40 کروڑ ڈالر رہی جبکہ 5 ارب 40 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کی گئی، اس طرح قرضوں میں 3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، تاہم نگران حکومت نے 3 ارب 90 کروڑ ڈالر کے بیرونی قرضے لیے جبکہ 3 ارب 60 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کی، اس طرح 30 کروڑ ڈالر کا خالص اضافہ ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں