پاکستان اپنی کمزور معیشت کو سہارا دینے میں مدد حاصل کرنے کے لیے رواں ماہ کے آخر میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بات چیت کرے گا جس میں ملک پر قرضوں کے بوجھ کا واضح تذکرہ ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف سے بات چیت کا پہلا مرحلہ رواں ماہ متوقع ہے جوکہ 3 ارب ڈالر کے قرض پیکج کی آخری قسط کے اجرا پر مرکوز ہوگا، پاکستان 6 ارب ڈالر کے نئے 3 سالہ قرض پروگرام کے لیے بات چیت کا ایک اور دور شروع کرے گا۔

رواں ہفتے کے آغاز میں ایک بیان میں آئی ایم ایف نے دونوں پیکجز پر پاکستان کی نومنتخب حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔

پاکستان کے آئندہ وزیر خزانہ کے لیے تقرری کے بعد ابتدائی غیرملکی مصروفیات میں آئندہ ماہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاسوں میں ملک کی نمائندگی کرنا شامل ہے۔

ابتدائی وزارتی اجلاس 17 سے 19 اپریل تک شیڈول ہیں، اس کے ساتھ 15 سے 20 اپریل تک پورے ہفتے میں اضافی تقریبات اور سرگرمیاں ہوں گی، پاکستان نے اِن اجلاسوں میں اپنی شرکت کے ارادے سے آگاہ کردیا ہے، نئے وزیر خزانہ وفد کی قیادت کریں گے۔

رواں برس ایک قابل ذکر واقعہ آئی ایم ایف سے بھارت کی اپیل ہے، جس میں آئی ایم ایف پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستان قرضوں کا استعمال دفاعی اخراجات پورے کرنے کے لیے نہ کرے۔

بھارت آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ میں شامل ہے لیکن اس نے ماضی میں ہمیشہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے قرضوں پر اعلانیہ تبصرے کرنے سے گریز کیا ہے۔

اگرچہ آئی ایم ایف کے فیصلے پر بھارت کی درخواست کا کوئی اثر غیر یقینی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام یا عدم استحکام قرض دہندگان کے ساتھ پاکستان کی مذاکراتی پوزیشن کو ضرور وضع کرے گا۔

واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اسکالر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ حالیہ چند ماہ کے دوران آئی ایم ایف نے کم از کم 2 بار پاکستان سے سیاسی استحکام میں اضافے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات اس تناظر میں قابل ذکر ہے کہ یہ ایک ایسے ادارے کی جانب سے آئی ہے جو عام طور پر ان ممالک کی ملکی سیاست پر اعلانیہ تبصرہ نہیں کرتا جن کو وہ فنڈز فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ آئی ایم ایف کا تازہ ترین بیان بانی تحریک انصاف عمران خان کے اُس خط کا واضح طور پر جواب تھا، جس میں آئی ایم ایف پر زور دیا گیا تھا کہ وہ کسی نئے معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے پاکستان کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لے۔

ٹورنٹو میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے پروفیسر مرتضیٰ حیدر (جو کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس سے بھی وابستہ ہیں) کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ عام انتخابات نے عدم استحکام کے فوری خدشات کو ختم کر دیا تھا لیکن معاشی بحران کے خطرے کے پیش نظر نئی انتظامیہ کو فوری طور پر ایک مزید معقول آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہے۔

3 ارب ڈالر کا موجودہ آئی ایم ایف پیکج رواں ماہ ختم ہو رہا ہے، لہٰذا حکومت کے لیے بڑے مالیاتی انتظامات کا حصول اولین ترجیح ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام اور ترقی کے لیے ادارہ جاتی ماحول کی اہمیت کے حوالے سے آئی ایم ایف کے بیان پر پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور نئی بننے والی حکومت کو خبردار ہوجانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں