ایران کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ انہوں نے 13 اپریل کو پرتگالی پرچم والے بحری جہاز کو ’بحری قوانین کی خلاف ورزی‘ پر قبضے میں لیا ہے، جب کہ پاکستان میں ایرانی مشن نے کہا کہ وہ اس بات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا جہاز پر کوئی پاکستانی شہری موجود تھا۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایران پاسداران انقلاب نے گزشتہ ہفتے آبنائے ہرمز میں اس مال بردار بحری جہاز کو قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا تھا جب تہران نے یکم اپریل کو دمشق میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کا بدلہ لینے کے لیے عزم کا اظہار کیا تھا۔

ایران نے کہا تھا کہ وہ حملے کے جواب میں اہم شپنگ روٹ بند کر سکتا ہے۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق پاسداران انقلاب کا ایک ہیلی کاپٹر بحری جہاز میں سوار ہوا اور اسے ایرانی پانیوں میں لے گیا۔

دمشق میں اسرائیلی حملے کے جواب میں 13 اپریل کو رات گئے ایران نے اسرائیلی سرزمین پر اپنے پہلے براہ راست حملے میں میزائل اور دھماکا خیز ڈرونز داغے تھے۔

ترجمان ناصر کنانی نے کہا بحری قوانین کی خلاف ورزی اور ایرانی حکام کی کال کو نظر انداز کرنے کے بعد یہ بحری جہاز ایران کے سمندری حدود میں داخل ہوا، ایران کو یقین ہے کہ اس جہاز کے اسرائیل سے تعلقات ہیں۔

بحری جہاز میں پاکستانی عملہ

اس کے علاوہ پاکستان میں ایرانی مشن نے کہا کہ وہ ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ قبضے میں لیے جانے والے بحری جہاز پر کوئی پاکستانی شہری یا ملاح سوار تھا۔

ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ انہیں اسلام آباد میں تہران کے سفیر سے پاکستانی شہریوں کے بارے میں معلومات موصول ہوئیں، اور انہوں نے 14 اپریل کو وزارت خارجہ کے ذریعے یہ تفصیلات اپنے دارالحکومت تک پہنچائیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم ایرانی اور پاکستانی وزارت خارجہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور تہران کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ ایم ایس سی ایریز بحری جہاز پر کم از کم دو پاکستانی سوار تھے، جہاز کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی او او) محمد عدنان عزیز ان میں سے ایک تھے۔

نجی نیوز چینل جیو نیوز کے مطابق عدنان عزیز کے قریبی خاندانی ذرائع نے بتایا کہ وہ ضبط شدہ بحری جہاز پر سوار تھے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے ان کی بحفاظت واپسی کے لیے دفتر خارجہ سے رجوع کیا ہے۔

اس کےعلاوہ یہ بھی کہا گیا کہ بحری جہاز میں تقریباً 17 بھارتی ملاح سوار تھے اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر ان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے ایرانی ہم منصب سے رابطے میں ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں