تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے فیض آباد دھرنا کمیشن نے اپنی رپورٹ وفاقی حکومت کو بھجوا دی ہے جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون سازی اور قواعد و ضوابط کا مسودہ تیار کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سویلین معاملات میں فوج یا اس سے منسلک ایجنسی کی مداخلت سے ادارے کی منصفانہ ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ فوج ریاست کا مقدس بازو ہے اس لیے تنقید سے بچنے کے لیے ادارے کو عوامی معاملات میں ملوث نہیں کیا جا سکتا، یہ کام (انٹیلی جنس بیورو) اور سول انتظامیہ کو سونپا جا سکتا ہے۔

کمیشن نے شہری علاقوں میں پیرا ملٹری ایف سی اور رینجرز کی تعیناتی کے خلاف بھی تجویز فراہم کی ہے۔

ریٹائرڈ پولیس افسر سید اختر علی شاہ کی سربراہی میں سابق انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) اسلام آباد طاہر عالم خان اور ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ خوشحال خان پر مشتمل 3 رکنی ممبر نے پر تشدد انتہا پسندی کے خلاف ’زیرو ٹالرنس‘ پر بھی زور دیا اور حکومت کو خطرے کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کا مشورہ دیا۔

کمیشن پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت تشکیل دیا گیا تھا تاکہ 6 فروری 2019 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل کو یقینی بنایا جا سکے، جسے اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنے کے نتائج اس وقت کے رہنما اور خاص طور پر حکومت پنجاب کی معاملے کو سنبھالنے کی ہمت نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ رونما ہوئے۔

اس رپورٹ نے نشاندہی کی کہ حکومت اور سرکاری اداروں کی جانب سے معاملہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے اور طاقت کے استعمال سے گریز کرنے کا معاہدہ ہوا تھا، ابتدائی طور پر وفاقی حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ پنجاب حکومت اس معاملے کو اپنے دائرہ اختیار میں لے، تاہم حکومت پنجاب کا مؤقف رہا کہ انہوں نے مظاہرین کے 12 میں سے 11 مطالبات تسلیم کر لیے۔

چونکہ مظاہرین کی آخری شکایت مرکز سے تھی، اس لیے صوبائی حکومت نے استدلال کیا کہ انہیں اسلام آباد جانے کی اجازت دی جائے، پنجاب حکومت نے مبینہ طور پر مرکز کو یقین دلایا کہ مظاہرین اپنا احتجاج درج کروانے کے بعد پرامن طور پر منتشر ہو جائیں گے۔

کمیشن نے یہ بھی نوٹ کیا کہ چونکہ اس وقت کے وزیر اعظم، سابق وزرائے قانون، داخلہ اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میں سے کسی نے بھی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر مظاہرین کی سہولت کاری کا الزام نہیں لگایا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی ثبوت پیش کیا اس لیے کمیشن تنظیم یا تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کے ساتھ جڑے کسی بھی ریاستی عہدیدار سے رابطہ نہیں کر سکا۔

رپورٹ میں ٹی ایل پی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا موازنہ 2000 کی دہائی میں عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے بھی کیا گیا ہے، رپورٹ میں پر تشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے طریقہ کار پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مذہبی عسکریت پسندی کی ڈائنامکس کا تجزیہ کیے بغیر، حکومت ہمیشہ کی طرح بنیادی وجہ کو حل کرنے کے بجائے صرف فوری حل کی کوشش کر رہی ہے اور ایسے رجحان نے ماضی میں کبھی کام نہیں کیا اور نہ ہی مستقبل میں کام کرے گا، مظاہرین کی شرائط پر معاہدے پر دستخط اور ماضی میں دوسرے عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ اسی طرح کے معاہدوں سے گہرے مسئلے کا عارضی حل ہی نکل سکتا ہے، اس میں دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے ایک مؤثر نظام کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور وزارت داخلہ کے درمیان سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے ’قانون کی خلاف ورزی کرنے والے نقصان دہ مواد‘ کے خلاف رابطہ ہونا چاہیے۔

کمیشن نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں کوتاہی کا بھی مشاہدہ کیا اور کرمنل انصاف کے نظام میں بنیادی اصلاحات کے ذریعے انسداد دہشت گردی کے اداروں کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔

اس نے 21 روزہ دھرنے کے دوران دہشتگردی اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ مقدمات دوبارہ کھولے جا سکتے ہیں اور ان کی تحقیقات کر کے انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مصطفیٰ امپیکس کیس کے فیصلے پر نظرثانی کی جا سکتی ہے، جس نے وزیر اعظم کے ایگزیکٹو اتھارٹی کو کمزور کر دیا تھا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کو مکمل انتظامی اور مالیاتی اختیار کے ساتھ صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے اور دارالحکومت میں پولیس آرڈر 2002 نافذ کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال**20 فروری** کو فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر کے بیانات ریکارڈ کر کے اپنی رپورٹ مکمل کرلی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں درج کیا گیا ہے کہ فیض آباد میں مذہبی جماعت کے دھرنے کے شرکا سے ڈی جی سی آئی ایس آئی نے اس وقت کے وزیر اعظم کی منظوری سے مذاکرات کیے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم ہاؤس کے میٹنگ کے منٹس کی توثیق کی، جن کے مطابق خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسر کو مذاکرات کی ہدایت وزیر اعظم آفس سے دی گئی تھی۔

22 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کو رپورٹ جمع کرانے کے لیے مزید ایک ماہ کی مہلت دے دی تھی۔

11 جنوری کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر 2017 میں فیض آباد انٹرچینج پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ تین رکنی کمیشن میں پیشی کے بعد کہا ہے عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ 75 سال تک ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ ہوا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 نومبر کو سپریم کورٹ میں فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے سے متعلق اس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت نے کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔

فیض آباد دھرنا

یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ کمیشن میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، 2 ریٹائرڈ سابق آئی جیز طاہر عالم خان اور اختر شاہ شامل ہیں۔

ڈان کو موصول نوٹی فکیشن کے ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کو فیض آباد دھرنا اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے لیے ٹی ایل پی کو فراہم کی گئی غیر قانونی مالی یا دیگر معاونت کی انکوائری کا کام سونپا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں