09-10-13-Religious tension in Pakistan as Muslims dig up Hindu grave 670
ہندو اور مسلمان صدیوں سے سندھ میں ایک ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں، اور یہاں کے ہندو اپنے انتقال کرجانے والے عزیزوں کی لاشوں کو جلانے کے بجائے مسلمانوں کی طرح تدفین کرتے ہیں، اور صدیوں سے وہ مسلمانوں کے قبرستان میں اپنے مُردوں کو دفناتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں شدت پسندوں کی سرگرمیاں بہت تیزی سے بڑھتی جارہی ہیں۔ —. فائل فوٹو وہائٹ اسٹار

صوبہ سندھ جو پہلے ہی تیزی کے ساتھ عدم استحکام کی جانب بڑھتا جارہا ہے، وہاں مذہبی فرقہ واریت پر مبنی کشیدگی میں اضافے کی ایک تازہ ترین علامت اس وقت سامنے آئی جب پولیس نے منگل کو اس بات کی تصدیق کی کہ مسلمان شدت پسندوں کے ایک ہجوم نے ایک ہندو کی لاش کو قبر سے نکال کر پھینک دیا۔

کراچی سے مشرق کی جانب لگ بھگ 225 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مسلم آبادی کے قصبے پنگریو میں ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کی لاش کو مسلمانوں کے مرکزی قبرستان میں دفن کرنے پر یہ ہجوم احتجاج کررہا تھا۔

رائٹرز کے نمائندے کے مطابق جنون میں مبتلا ہجوم میں شامل افراد نے ”اللہ اکبر“ کے نعرے بلند کرتے ہوئے قبر کو کھود کر لاش نکالی اور اُسے سڑک پر پھینک دیا۔

ہندو برادری کا اس شخص کا نام بھورو بھیل تھا۔ تیس برس کا بھورو سڑک کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگیا تھا اور ہفتے کے روز مذہبی رسومات کے ساتھ اس کی تدفین کردی گئی تھی۔

ہندو برادری کے ایک رکن نارائن داس بھیل نے رائٹرز کو بتایا کہ ”اب ہمارے لوگوں کی لاشیں بھی اپنی قبروں میں محفوظ نہیں رہی ہیں۔“

مقامی پولیس کے آفیسر اسلم خانزادہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ مسلم برادری کے افراد نے اتوار کے روز قبر کو کھود کر لاش باہر نکالی اوراُسے  قصبے کی انتظامیہ کے حوالے کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھورو بھیل کی لاش کی اب دوبارہ دوسری جگہ تدفین کردی گئی ہے۔

رائٹرز کے مطابق پولیس چیف شوکت علی کھتیان کا کہنا ہے کہ ”کشیدگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے، لیکن ہم نے صورتحال پر قابو پالیا ہے۔“

انہوں نے مزید بتایا کہ شدت پسند تنظیم اہلِ سنت والجماعت کے کچھ مذہبی عالموں کی نےاس حوالے سے لوگوں میں اشتعال پیدا کیا تھا چنانچہ بعد میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اکھٹا ہوکر قبر کھود کر لاش نکالی اور اس کو سڑک پر پھینک دیا۔

یاد رہے کہ ہندو اور مسلمان صدیوں سے سندھ میں ایک ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں، اور یہاں کے ہندو اپنے انتقال کرجانے والے عزیزوں کی لاشوں کو جلانے کے بجائے مسلمانوں کی طرح تدفین کرتے ہیں، اور صدیوں سے وہ مسلمانوں کے قبرستان میں اپنے مُردوں کو دفناتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں شدت پسندوں کی سرگرمیاں بہت تیزی سے بڑھتی جارہی ہیں۔

لگ بھگ دولاکھ افراد کے ساتھ ہندو برادری کی تعداد پاکستانی آبادی کا محض دو فیصد بنتی ہے، ان میں سے زیادہ تر صوبہ سندھ اور اس کے  دارالحکومت کراچی میں آباد ہیں۔ لیکن دونوں مذہبی گروہوں کے درمیان کشیدگی کے واقعات بہت کم سننے میں آئے ہیں۔

مولوی مٹھن نامی ایک مسجد کے پیش امام نے اے ایف پی کو بتایا کہ مسلمانوں کے شدید احتجاج کی وجہ سےپورا شہر بند ہوگیا تھا۔

اے ایف پی کے مطابق بھورو بھیل جس کی لاش کی بے حرمتی کی گئی، کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ پولیس نے مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا۔ بھورو بھیل کے ایک کزن نرسنگھ بھیل نے کہا کہ میرے کزن کی لاش کو قبر سے نکال کر نہایت بے دردی کے ساتھ سڑک پر پھینک دیا گیا، جہاں وہ سارا دن شدید گرمی میں پڑی رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہندو لوگ اس قبرستان کے ایک حصے میں اپنے مرنے والوں کی تدفین کئی دہائیوں سے کرتے آئے ہیں، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا ”اس قبرستان میں ہمارے آباؤاجداد کی سو سے زیادہ قبریں موجود ہیں۔“

تبصرے (6) بند ہیں

nadia Oct 09, 2013 04:25am
Afsos sud afsos, people of Sindh pls stand up against these fanatics before its too late.
Raiskhanpathan Oct 09, 2013 02:40pm
haum hindustani muslman jis tarha se mukamal mazhabi azadi ke sath yahan rahete haen pakistan me hamare hindu bhaiyun aur baheno ko pakistan me mazhabi azadi kiyun nahi di jati haey jabke woh wahan ke wafa daar bashinde haen jabke islam ne gayer mazhab ke logun ke saath achcha saluk karne ki talim di haey kiya pakistani musalman khule aam mazhabe islam ka mazaq uda rahe haen
kanoorani Oct 09, 2013 04:22pm
Welcome to Zia-ul-Haq's Pakistan. May his soul rots in hell forever!
Ahmed Oct 10, 2013 09:50am
Zia aik Shaheed aur Islam Parast insan tha.
عبداللطیف ابو شامل Oct 11, 2013 10:26am
افسو س صد افسوس . کیا ھندو رب کی مخلوق نہیں ہیں ، اسلام نے کب اجازت دی ہے کہ کوئی بھی کسی بھی انسان کی توھین اور بے حرمتی کرے ، اسلام تو رواداری کا ، انسان سے محبت کا درس دیتا ہے ، نہیں اسلام اس قبیح فعل کی اجازت نہیں دیتا ، یہ اسلام نہیں . ملائیت ہے ، تنگ دلی اور سفاکی ہے ، اسلام کسی بھی انسان کی تو ھین اور بے حرمتی کی قطعا اجازت نہیںدیتا ، کیا وھاں سارے مسلم یھ دیکھتے رہے اعر انتظامہیہ کیا کر رہی ےتھی ... افسوس اور شرمندگی کے سوا کیا کہا جائے ، ، اسسوس . میں اپنے ھندو بھائیوں سے معزرت چاھتا ہوں . ان کے غم میں شریک ہوں.... افسوس صد افسوس
ظہیر خان Oct 11, 2013 08:46pm
سندھی دانشور اعجاز منگی کی تحریرسے اک اقتباس یہ تحریر نہی بلکہ نوحہ ھے دھرتی کے بیٹوں کا دھرتی ماں کی اجڑی کوکھ کانوحہ اعجاز منگی کی زبانی بھورو بھیل کی کہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خورشید قائم خانی نے ایک کتاب لکھی تھی ’’بھٹکتی ہوئی نسلیں‘‘۔ ان بھٹکتی ہوئی نسلوں سے ہی تعلق تھا اس بھورے بھیل کا جس کے جسد خاکی کا بھٹکنا سندھی میڈیا کا بہت بڑا اشو بن گیا ہے۔وہ شخص جو نہ ہندو تھا اور نہ مسلمان ۔جو نہ سکھ تھا اور نہ عیسائی۔ جو نہ بدھ تھا اور نہ جین۔ اس شخص کو جب مرنے کے بعدمیرپور خاص کے مشہور شہر پنگریو کی سرزمین میں دفن کیا گیا تو بقول اقبال ’’مذہب کی حرارت ‘‘ رکھنے والے چند لوگوں نے ان کی لاش کو قبر سے نکال کر کڑی دھوپ میں پھینک دیا۔اور اس وقت نہ تو میرپور خاص کا وہ شاعر زندہ تھا جو یہ کہتا کہ ’’اسے میرے دل میں دفن کرو‘‘ اور نہ ہی وہ خورشید قائم خانی ہی اس دنیا میں موجود ہے جو اس کی لاش کو لے آتا اواسے اپنے گھر کے آنگن میں اس کی قبر بنالیتا اور جب چیت کا چاند اپنی کرنیں بکھیر دیتا اس دھرتی پر تب وہ خورشید قائم خانی اپنی مخصوص کیفیت میں بھورو بھیل سے مخاطب ہوکر کہتا کہ’’اے خانہ بدوش! بتاؤ کہ خرابی کہاں سے شروع ہوئی؟‘‘ ایک حادثے کا شکار ہوکر مرجانے والا بھورو بھیل جس طرح اس جدید دور میں اپنی قدیم مظلومیت کی علامت بننے کی کوشش کر رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ’’تاریخ پچھتاتی بھی ہے‘‘ اور تاریخ کو پچھتانا بھی چاہئیے!! تاریخ کو ان انسانوں کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے کٹہڑے میں آنا پڑے گا اور اسے بتانا پڑے گا کہ ’’ان لوگوں کاکوئی مذہب نہیں۔ تاریخ کے خط استوی پر اپنی منزل سے بھٹک جانے والے ان لوگوں کا کوئی دیس نہیں۔ اپنے دیس میں پردیسی جیسی زندگی گذارنے والے ان لوگوں کو ایک ملک تو کیا ایک مکان بھی نہیں ہے۔ وہ جہاں کھلی جگہ دیکھتے ہیں وہاں لکڑیاں اور گھاس پھونس جمع کرکے اپنی کٹیائیں بنا لیتے ہیں اور جب کوئی ان سے کہتا ہے کہ ’’یہاں سے دفع ہو جاؤ‘‘ تو وہ کوئی سوال پوچھے بغیر اپنے گدھوں پر وہی لکڑیاں اور گھانس پھونس لاد کر پھر کسی جگہ کے جانب چل پڑتے ہیں اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے انہیں دکھ بھی نہیں ہوتا۔ ان کی آنکھوں سے ایک آنسو تک نہیں گرتا۔ کیوں کہ یہ لوگ صدیوں سے یہی زندگی جیتے آ رہے ہیں۔ وہ ہندؤں کی طرح اپنے جنازے نہیں جلاتے۔ وہ دفن کرتے ہیں۔ مگر بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے اب انہیں صرف جینے کے لیے جگہ کی تنگی نہیں بلکہ مرنے کے لیے دفن ہونے کو دو گز زمین نہیں ملتی۔ یہ لوگ جو کبھی کراچی سے لیکر کشمیر تک ایک بہت بڑی سرزمین کے مالک تھے۔ اب انہیں دھرتی کا کوئی ٹکڑا نہیں ملتا جہاں وہ اپنے دل کے ٹکڑوں کو دفن کر آئیں۔ بھورو بھیل اس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ جس قبیلے کو عام لوگ خانہ بدوش کہتے ہیں اور جنہوں نے انگریزی کے دو الفاظ پڑھے ہیں وہ انہیں رومانوی انداز سے ’’جپسی‘‘ بلاتے ہیں۔ بھورو بھیل بھی جپسی تھا۔ بادامی آنکھوں اور تانبے جیسی رنگت رکھنے والے بھورو بھیل کی کہانی اگر ایک حقیقت نہیں بلکہ ایک ناٹک ہوتی تو تاریخ کی روح سفید لباس پہن کر بھورو بھیل کی مذار پر ضرور جاتی اور اس سے مخاطب ہوکر ضرور کہتی کہ ’’میرے بیٹے! مرنے کے بعد تاریخ کے اس بھاری بھرکم صلیب کا بوجھ تم کو اٹھانا تھا اور تم کو بتانا تھا کہ تم ابھی تک خانہ بدوش ہو‘‘ ہاں! وہ خانہ بدوش تھا۔ زندگی میں تو خانہ بدوشی بہت کرتے ہیں مگر اس کے مقدر میں مرنے کے بعد بھی خانہ بدوشی ہی آئی۔ اور اس کے اس المیے کا اظہار کسی نیوز چینل نے نہیں کیا۔آج کل کی حکومتیں اپنے ضمیر کا کم اور میڈیا کا زیادہ سنتی ہیں۔ مگر قومی میڈیا میں اس مظلوم خانہ بدوش کی داستان درد نشر نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔ اس ملک کی اکثریت کوکبھی تو معلوم ہوگا کہ ’’ایک تھا بھورو بھیل‘‘ درواڑ نسل کا وہ انسان جس کی بھوری آنکھوں میں ایک فنکار بننے کا خواب تھا۔اسے یقین تھا کہ وہ اپنے فن سے ملک کی میڈیا پر چھا جائے گا۔اس نے اپنے قبیلے بچپن سے یہی سنا تھا کہ وہ خوبصورت ہے۔ اسے اپنے حسن اور اپنی صلاحیتوں پر ناز تھا۔ مگر کسی چینل نے اسے فن کے مظاہرے کا موقع نہیں دیا۔ وہ مقامی پروگراموں میں اسٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا اوراس کو اتنا کچھ ملتا جتنا ایک بھیل اور باگڑی کو خیرات میں ملا کرتا ہے۔ مگر وہ زیادہ رقم کا تقاضہ نہیں کرتا اور مسکرا کر دعائیں دیتا ہوا چل پڑتا۔ زندگی کے اس سفر میں وہ کسی منزل پر نہیں پہنچا اور حادثے کا شکار ہوگیا۔ اور مرگیا!! اس کے موت پر میڈیا ماں افسوس کے اظہار والے بیانات شایع نہیں ہوئے۔ کوئی ریفرنس نہیں ہوا۔ وہ ایسے چلا گیا جیسے بنجارے جاتے ہیں۔ بغیر بتائے۔ چپ چاپ اور خاموش!! اور مرنے کے بعد ان کے ورثاء نے اسے انہیں کپڑوں کے ساتھ ایک رلی میں لپیٹ کر مقامی قبرستان میں دفن کیا مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ دور تبدیل ہوچکا ہے اور بھورو بھیل کی تدفین ایک تنازعے کی صورت اختیار کر گئی اور اسے گاؤں کے کچھ لوگوں نے ان کی قبر کھود کر اسے کے جسد خاکی کو باہر نکال کر دھوپ میں پھینک دیا۔ اس طرح جن لوگوں سے دھرتی پر جینے کا حق چھینا گیا ان لوگوں سے اب مرنے کے بعد دفن دھرتی میں دفن ہونے کا حق بھی چھینا گیا تو وہ لوگ کہاں جائیں گے؟ اس سوال کا جواب سمۂ کو بھی دینا ہوگا اور اس سرکار کو بھی جس نے ان انسانوں کو اقلیت کی سیاست چمکانے والے ان ہندؤں کے دفتر میں داخل کردیا ہے جو انہیں اپنے مندروں میں آنے نہیں دیتے۔ جو انہیں اپنے شمشان گھاٹوں میں مردے جلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔وہ کہاں جائیں؟ اگر وہ دولت اور دماغ کے حوالے سے غریں نہ ہوتے تو وہ اپنے قبرستان بناتے ۔ مگر جنہیں جینے کے لیے بستیاں نہیں وہ قبرستان کیا بنائیں گے!! وہ جو خانہ بدوش ہیں۔ بنجارے ہیں۔ جن کی زندگی نے ہمیشہ پیٹھ پر ڈیرے ڈالے ہیں۔ مگر مرجانے کے بعد تو انسان اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس حوالے سے زمانے کا ضمیر بتائے کہ موت کے بعد ایک خانہ بدوش کہاں جائے!!!!؟؟؟ وہ خانہ بدوش جن کے آباؤ اجداد نے موہن جو داڑو جیسے حیرت انگیز شہر میں دھات کے بھالے بنانے کے بجائے مٹی کے وہ کھلونے بنائے جن کی مالیت آج عالمی منڈی میں کروڑوں ڈالروں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ مگر آج ان انسانوں کو مرجانے کے بعد مٹی سے مٹی ہونے کا حق بھی میسر نہیں اور اس المیہ پر کوئی اداس نہیں۔ نہ انسانی حقوق کے تحفظ کے داعی اور نہ اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے! نہ حزب اقتدار اور نہ حزب اختلاف!! اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ بھورو بھیل کے ورثاء بھی اس زیادتی کو کوئی بڑی بات نہیں سمجھ رہے مگر ادب اور فن سے پیوستہ دلوں میں ایسے المیاتی واقعات کے حوالے سے یہ احساسات ضرور جنم لیتے ہیں جن کا اظہار کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ: ’’اے آسمانوں نیلے جہانوں جائیں کہاں یہ بھٹکتے اور بے گھر۔۔۔۔!!‘