پاکستان، چینی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2015
اکیس نومبر2010ء کی اس تصویر میں پاکستان ایئرفورس کے اہلکار جے ایف-17 جیٹ فائٹر طیارے کے سامنے بیٹھے ہیں۔جسے چین کی آٹھویں بین الاقوامی ایوی ایشن اور ایرواسپیس کی نمائش میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ نمائش چین کے جنوبی ساحلی صوبے گوانگڈونگ کے شہر ژوہائی میں منعقد ہوئی تھی۔  —. فائل فوٹو اے پی
اکیس نومبر2010ء کی اس تصویر میں پاکستان ایئرفورس کے اہلکار جے ایف-17 جیٹ فائٹر طیارے کے سامنے بیٹھے ہیں۔جسے چین کی آٹھویں بین الاقوامی ایوی ایشن اور ایرواسپیس کی نمائش میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ نمائش چین کے جنوبی ساحلی صوبے گوانگڈونگ کے شہر ژوہائی میں منعقد ہوئی تھی۔ —. فائل فوٹو اے پی

اسٹاک ہوم: جرمنی اور فرانس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے امریکا اور روس کے بعد چین دنیا کا تیسرا بڑا اسلحہ برآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔

اس بات کا انکشاف اسٹاک ہوم میں قائم ایک تھنک ٹینک نے آج کیا۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران 2010ء سے 2014ء کے درمیانی عرصے کے دوران کئی ارب ڈالرز پر مشتمل اسلحے کی عالمی تجارت میں سولہ فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔

سپری کے مطابق اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ روایتی ہتھیاروں کی عالمی برآمدات میں اپنے 31 فیصد حصے کے ساتھ ’’امریکا سرفہرست ہے۔‘‘

مزید یہ کہ روس اپنے 27 فیصد حصے کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

اگلے تین ہتھیاروں کے برآمد کنندگان اپنے تقریباً پانچ فیصد کے حصے کے ساتھ کافی پیچھے ہیں، اور چین چوتھے نمبر پر جرمنی اور پانچویں درجے پر فرانس سے کچھ آگے ہے۔

دو تہائی سے زیادہ چینی برآمدات تین ایشیائی ملکوں کے حصہ میں آئیں، جن میں پاکستان کل برآمدات کے اکتالیس فیصد کی خریداری کررہا ہے، اس کے بعد بنگلہ دیش اور میانمار ہیں۔ اس عرصے کے دوران افریقہ میں 18 اقوام بھی بیجنگ کے اسلحے کی گاہک تھیں۔

دنیا کے ایک بڑے اسلحہ برآمدکنندہ روس کا سب سے بڑا گاہک ہندوستان تھا۔ اسلحے کی کل درآمدات میں سے ہندوستان نے ستر فیصد کی خریداری روس سے کی تھی۔

امریکا سے اسلحہ خریدنے والے گاہکوں کی تعدادسب سے زیادہ رہی۔ امریکی اسلحہ کی کل برآمدات میں سے صرف نو فیصد حصے کی خریداری کے ساتھ شمالی کوریا سرفہرست تھا۔

اسلحہ کے سرفہرست برآمدکنندگان کے درمیان چین کی فروخت میں پچھلے پانچ سالوں کے دوران 143 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔ یوکرین اور روس کی برآمدات میں اضافہ ہوا، جبکہ جرمنی اور فرانس کی درآمدات میں کمی آئی۔

سپری نے واضح کیا ہے کہ یہ اعدادوشمار اسلحے کی ترسیل کے حجم کی عکاسی کرتے ہیں، نہ کہ سودے کی مالیاتی قیمت کی۔

اسلحہ کی تجارت میں پچھلی دہائی کے دوران اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ حجم اس سے ایک تہائی کم رہا، جو 1980ء کی دہائی کی ابتداء میں انتہائی بلند سطح پر پہنچ گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں