اسلام آباد: پاناما لیکس ٹی او آرز پر حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک برقرار ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن اراکین کو کمیٹی سے علیحدگی کی تجویز دے دی ہے۔

ٹی او آرز پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ اسلام آباد میں ہوا جہاں اپوزیشن کی جانب سے حکومتی ٹی او آرز کا جواب پیش کیا گیا۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس: وزیراعظم سے تحقیقات کا مطالبہ برقرار

گزشتہ کئی اجلاسوں کی طرح اس اجلاس میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملے پر ڈیڈ لاک ختم نہ ہو سکا اور کمیٹی کا اجلاس بغیر کسی پیشرفت کے منگل تک ملتوی کر دیا گیا۔

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج کے اجلاس میں بھی کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی، اب بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاناما پیپرز پر احتساب ہی نہیں چاہتی، جس کی وجہ سے صورتحال پہلے سے بھی بگڑ گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کے بغیر پاناما لیکس کی تحقیقات لاحاصل

انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو پارلیمانی کمیٹی سے علیحدگی کی تجویز دی اور کہا کہ حکومت مکمل طور پر غیرسنجیدہ ہے، کمیٹی کا مزید حصہ رہنا بے سود ہے۔

سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ہے۔

خیال رہے کہ پاناما لیکس کے ٹی او آرز بنانے کے لیے کمیٹی کے اب تک کئی اجلاس ہوچکے ہیں تاہم دونوں اطراف اپنے موقف پر قائم ہیں اور ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

حکومتی ٹی او آرز

اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے ٹی او آرز حکومت پہلے ہی مسترد کرچکی ہے، جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن کے ٹی او آرز کو تماشا قرار دیا تھا۔

حکومت کی جانب سے کمیشن کے لیے مندرجہ ذیل ٹرمز آف ریفرنس مقررکیے گئے تھے۔

مزید جانیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

• کمیشن پاکستانی شہریوں، پاکستانی نژاد غیر ملکیوں اور اداروں سے پاناما یا کسی اور ملک میں آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کرسکے گا۔

• کمیشن کو موجودہ یا پھر سابقہ عوامی عہدوں کے حامل افراد سے بھی تحقیقات کا اختیار ہوگا جنہوں نے سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہل خانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائی گئی رقم ملک سے باہر بھجوائی۔

• انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا پاناما لیکس کے الزامات کے مطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

• انکوائری کمیشن کو ٹیکس ماہرین اور اکاونٹنٹ سمیت کسی بھی شخص کو طلب کرنے کا اختیار ہوگا۔ کمیشن کسی بھی قسم کی دستاویز طلب کرسکے گا۔

• انکوائری کمیشن کے سربراہ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ مجاز افسر کو کسی بھی عمارت یا مقام میں داخلے اور مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کے احکامات دے سکے گا۔

• انکوائری کمیشن کی تمام کارروائی عدالتی کارروائی تصور ہوگی۔ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔

• تحقیقات کب اور کہاں ہوں گی اس کا فیصلہ انکوائری کمیشن خود کرے گا۔

• کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو دفتری خدمات فراہم کرے گا۔

تاہم اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آرز کو مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: الزام ثابت ہوا تو گھر چلاجاؤں گا: نوازشریف

اپوزیشن کے ٹی او آرز

حزب اختلاف کی 9 جماعتوں کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے لیے 15 ٹی او آرز متفقہ طور پر منظور کیے گئے تھے۔

اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے وزیر اعظم سے استعفے کے مطالبے پر اتفاق کیا تھا تاہم قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اختلاف کے باعث وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ ٹی او آرز میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

اپوزیشن کے ٹی او آرز میں کمیشن کی جانب سب سے پہلے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ اس کے لیے 3 ماہ کی مدت مقرر کرنے کا بھی مطالبہ شامل تھا۔

پاناما لیکس میں سامنے آنے والے دیگر افراد کے حوالے سے یہ شق شامل کی گئی تھی کہ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کے بعد دیگر لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے جبکہ اس کی تحقیقات ایک سال میں مکمل کر لینی چاہیے۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو غلط ثابت کرنا ہوگا۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ خود کو تحقیقات کیلئے کمیشن کے سامنے پیش کریں۔

• نواز شریف 1985 سے 2016 تک جائیداد کی تفصیلات فراہم کریں۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے ذرائع آمدن کیا تھے، کن بینک اکاؤنٹس میں رقم رکھی گئی؟

• کیا اس آمدن پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جانا تھا؟

• بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں کیلئے رقم کن بینک اکاؤنٹس، کس تاریخ پر ادا کی گئی؟

• کمیشن کو آف شور اکاؤنٹس میں بھیجی گئی رقم کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔

• کیا وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ دسمبر 2000 کے بعد اسٹیٹ گیسٹ تھے؟

• خصوصی کمیشن عالمی فرانزک آڈٹ کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی مقرر کرسکے گا۔

• ماہرین کی کمیٹی آف شور کمپنیوں کیلئے رقم کی مکمل چھان بین کرے گی۔

• نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس تحقیقات: 'اپوزیشن کے ٹی او آرز مسترد'

پاناما لیکس

خیال رہے کہ پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کے نام پر آف شور کمپنیاں ہونے کے معاملے کا انکشاف ہوا تھا، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی بڑی جماعتوں نے وزیراعظم سے استعفے اور ان کمپنیوں میں منتقل ہونے والی رقم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟


• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

یہ بھی جانیں: 'دہشت گردوں اور دھرنے والوں کا ایجنڈا ایک ہے'

ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

اس سلسلے میں وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا البتہ اس کمیشن کے ضابطہ کار پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔

ضروری نہیں افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں کیونکہ برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔

دستاویزات کے مطابق، وزیر اعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔

خیال رہے کہ یو این کمیٹی نے 2005 میں انکشاف کیا تھا کہ یہ کمپنی عراق میں ’تیل کے بدلے خوراک‘ سکینڈل میں ملوث تھی۔

اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

میڈیا مینیجر پاشازی ٹی وی سمیت دوسرے انڈین چینلز سے کاروباری معاہدے کرتے رہے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ ان میں سے عثمان سیف اللہ پی پی پی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔

سابق جج ملک قیوم، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے پی ایم ایل-ن کے رکن قومی اسمبلی ہیں، کا نام بھی دستاویزات میں شامل ہے۔

لیکس میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔

لیکس میں بتایا گیا کہ ثمینہ درانی کم از کم تین آف شور کمپنیوں Rainbow Ltd, Armani River Ltd and Star Precision Ltd جبکہ میراج Haylandale Ltd میں بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔

تاہم ،میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں