اسلام آباد: پارلیمانی کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی نے حکومت کو نیٹو سپلائی ٹرکوں کی طرح چینی ٹرکوں کو پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) استعمال کرنے کی اجازت دینے پر خبردار کردیا۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی کے چیئرمین عبدالمجید خان خانان خیل نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سوال کیا ’ہم نیٹو کو سپلائی فراہم کرنے والے ٹرکوں کی طرح چینی ٹرکوں کو سڑکیں، زمین اور مکمل روٹ فراہم کر رہے ہیں، لیکن اس کے لیے کیا شرائط رکھی گئی ہیں'۔

انہوں نے سوال کیا، 'چین تجارت کے لیے راہداری کو استعمال کرنے کی صورت میں پاکستان کو کیا دے گا، اس حوالے سے کچھ لازمی فیصلے ہونے چاہئیں‘۔

انہوں نے سڑکوں اور انھیں استعمال کرنے والوں کی حفاظت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'انہیں تعجب ہے کہ روٹ کی سڑکوں کی مینٹیننس اور سیکیورٹی کے اخراجات کون برداشت کرے گا'۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نیٹو کو سپلائی فراہم کرنے والی بھاری گاڑیوں نے ملک کے روڈ نیٹ ورک کو بری طرح متاثر کیا ہے اور پاکستان کو پڑوسی ملک افغانستان جانے والی اس سپلائی کا کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘چین سی پیک کو بھارت سے تجارت کیلئے استعمال کرسکتا ہے‘

نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے سابق چیئرمین محمد علی گردیزی نے مئی 2012 میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو بتایا تھا کہ افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی کے باعث 100 ارب یعنی ایک کھرب کا نقصان ہوا، مگر پاکستان کو ہائی ویز کی مرمت کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں ملا۔

قائمہ کمٹی کے اجلاس میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سیکریٹری برائے منصوبہ بندی و ترقی نے بتایا کہ ’اگرچہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، مگر ہم اپنے مفادات کا تحفظ کریں گے‘۔

سیکریٹری نے اس بات کی وضاحت نہیں کہ متاثر ہونے والی سڑکوں کی تعمیر کے اخراجات کون برداشت کرے گا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ سی پیک سے متعلق سیکیورٹی کے اخراجات حکومت پاکستان برداشت کرے گی۔

انہوں نے بتایاکہ راہداری سے متعلق سیکیورٹی اور دیگر تمام انتظامات کے حوالے سے تمام فیصلے مشترکہ طور پر حال ہی میں بیجنگ میں ہونے والے چھٹے پاک-چین مشترکہ تعان کمیٹی (جے سی سی) کے اجلاس میں کیے گئے، جس میں تمام تحفظات پر گفتگو کی گئی۔

سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقی نے بتایا کہ سی پیک کے منصوبوں اور اس پر کام کرنے والے افراد کی حفاظت کے لیے 10 ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے جاچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے راستے نیٹو سپلائی بند

انہوں نے مزید بتایا کہ سیکیورٹی فراہم کرنا ہمارا کام ہے، جس کے لیے یہ طے کیا گیا تھا کہ سی پیک منصوبوں کی ایک فیصد کمائی سیکیورٹی پر خرچ کی جائے گی۔

جی ٹی روڈ کی حفاظت

پارلیمانی کمیٹی نے گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی حفاظت اور خطرناک حادثات سے بچنے کے لیے نیشنل ہائی وے (این ایچ اے) کی جانب سے کیے گئے انتظامات پر تحفظات کا اظہار کیا۔

کمیٹی نے این ایچ اے کو ہدایات جاری کیں کہ سڑک پر ہونے والے حادثات سے متعلق جامع رپورٹ پیش کی جائے۔

حکمران جماعت کے ایم این اے اور کمیٹی کے رکن چوہدری جعفر اقبال نے کہا کہ این ایچ اے جی ٹی روڈ کے ساتھ دوسری سڑکوں خاص طور پر لاہور-راولپنڈی روڈ پر پیدل چلنے والوں کی سہولت کے لیے پل، انڈر پاسز اور زبیرا کراسنگ بنانے سمیت روڈ سیفٹی کی مکمل سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قلات، کوئٹہ اور چمن ہائی وے کیلئے نو کروڑ ڈالر مختص

انہوں نے بتایا کہ لاہور سے راولپنڈی تک جی ٹی روڈ کے روٹ پر 17 اضلاع اور کئی شہروں سمیت سیکڑوں گاؤں واقع ہیں، مگر روڈ پر نہ تو زیبرا کراسنگ ہے اور نہ ہی پیدل چلنے والے لوگوں کے لیے کوئی پل ہے۔

ریلوے منصوبے

پارلیمانی کمیٹی کے ایک اور اجلاس میں سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقی نے سی پیک میں شامل ریلوے منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ دی گئی، انھوں نے بتایا کہ کراچی سے پشاور تک ریلوے کے موجودہ ٹریک ایم ایل 1 کو 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ڈبل ٹریک میں تبدیل کیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سنگل ٹریک کو ڈبل کرنے سے محکمہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا، جس کے بعد ادارہ گوادر سے کوئٹہ اور پشاور سے طورخم اور جلال آباد تک بچھی ہوئی ریلوے لائنوں کو دوبارہ بحال کرنے سمیت طویل اور وسط مدتی منصوبے شروع کرسکے گا۔


یہ خبر 28 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں