اسلام آباد: چین کی جانب سے پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کو ہندوستان کے ساتھ ممکنہ طور پر تجارت بڑھانے کے لیے استعمال کیے جانے پر قانون سازوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پلاننگ و ڈیویلپمنٹ کے ایک اجلاس کے دوران چند سینیٹرز نے خیال ظاہر کیا کہ سی پیک منصوبے میں چین کی سرمایہ کاری کی وجہ مختلف ممالک کے ساتھ تجارت کے نئے باب کھولنا ہے جن میں ان کے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کی ریاستیں اور یورپ شامل ہیں۔

کمیٹی کے چیئرمین سید طاہر حسین مشہدی نے سینیٹرز کی جانب سے اٹھائے گئے اس نکتے کی تائید کی کہ سی پیک کے تحت موناباؤ اور امرتسر کے ذریعے ہندوستان تک بہتر ریل اور سڑک کا راستہ قائم ہوجانے کے بعد چین نہ صرف وسط ایشیائی اور یورپی ممالک بلکہ انڈیا کے ساتھ بھی تجارت میں اضافہ کرسکتا ہے تاکہ اپنے 8 پسماندہ صوبوں کو معاشی طور پر مضبوط کرسکے۔

طاہر حسین مشہدی کا کہنا تھا کہ ’چین بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لیے سی پیک کا استعمال ضرور کرے گا کیونکہ سرمایہ کاری کرنے والا سب سے پہلے اپنا منافع دیکھتا ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہندوستان کے ساتھ چین کے تجارتی تعلقات پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں اور گذشتہ سال چین نے بھارت کے ساتھ 100 بلین ڈالر کے تجارتی منصوبوں پر دستخط کیے تھے۔

طاہر حسین مشہدی نے خیال ظاہر کیا کہ ’پاک بھارت کشیدہ تعلقات کے باوجود چین بذریعہ سی پیک بھارت سے تجارت کرے گا‘۔

قائمہ کمیٹی کے ارکان نے ریلوے انتظامیہ سے ایم ایل-2 اور ایم ایل-3 ٹریکس بچھانے کی درخواست کی جو پاکستان کو ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں سے جوڑیں گے۔

سینیٹر سعود مجید کا کہنا تھا کہ ان مقامات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے یہ منصوبے چین کی ترجیح میں شامل ہوں گے۔

تاہم ریلوے افسران کی جانب سے کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ وہ اپنی توجہ موجودہ ٹریک ایم ایل-1 کو بہتر بنانے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں جو کراچی کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑتا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد ایم ایل-1 ٹریک کے قریب علاقوں میں آباد ہے۔

سینیٹر سراج الحق نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ ان منصوبوں کو ترجیح دے جو پاکستانی عوام کے لیے زیادہ اہم ہیں اور اس کے بعد ان منصوبوں کے بارے میں سوچا جائے جو چین کے لیے نفع بخش ہیں۔

سراج الحق کی نظر میں اگر سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور فاٹا کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو سی پیک سے فائدہ نہیں پہنچتا تو ان کے پاس زندگی بسر کرنے کے لیے ہاتھوں میں اسلحہ اٹھالینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔

جماعتِ اسلامی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’اگر نظرانداز علاقوں کی معاشی حالت میں سدھار نہیں آتا تو ان علاقوں میں رہنے والے افراد مجبور ہوجائیں گے کہ 2 ہزار روپے کے لیے بھی کسی سے لڑائی مول لے لیں'۔

پاکستان ریلوے کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ سی پیک کے تحت بننے والے ریلوے کے تمام منصوبے پاکستان اور چین کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کیے گئے ہیں اور پاکستان کسی بھی منصوبے کا آغاز اکیلے نہیں کرسکتا۔

ریلوے حکام کے مطابق، ’دونوں ممالک کے مشترکہ ورکنگ گروپس ہیں جو منصوبے کی تشکیل اور ان پر کام کا آغاز کرتے ہیں‘۔

جس پر سینیٹرسراج الحق کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ان کے ساتھی سی پیک پر بات چیت کے لیے چین کے دورے پر گئے جہاں چینی حکام کی جانب سے انہیں آگاہ کیا گیا تھا کہ سی پیک پر منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کا اختیار پاکستان کو حاصل ہے اور چین کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔

سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ریلوے کی جانب سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا گیا اور انگریز حکمرانوں کے چھوڑے ہوئے نظام سے ہم بالکل آگے نہیں بڑھ سکے۔

یہ بھی پڑھیں: ہندوستان نے چین کو سی پیک پر خدشات سے آگاہ کردیا

عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے لیے نئے ریلوے ٹریکس (ایم ایل-2 اور ایم ایل-3) منصوبوں کا آغاز جلد از جلد ہوجانا چاہیے کیونکہ یہ راستے پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں مددگار ہوں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس ان علاقوں میں سونا، چاندی، ماربل، گرینائٹ اور تانبے جیسے قدرتی وسائل کی فراوانی ہے اور ان وسائل کو ریلوے کے ذریعے ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت کی جانب سے توانائی کی پیداوار کے کئی منصوبے 2018 سے 2020 تک مکمل ہوجائیں گے۔

یہ خبر 17 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں