فوجی عدالتوں کے معاملے پر پیپلزپارٹی کا اچانک یوٹرن حیران کن ہے۔ کہا گیا کہ "حیران نہ ہوں یہ سب کچھ قومی مفاد میں فیصلہ کیا ہے۔"

ہماری پیدائش سے بھی پہلے ہمارے مرحوم جگادریوں نے کچھ ایسے الفاظ تخلیق کر ڈالے تھے جو آج تک ان کے ورثا کو کسی بھی مشکل صورتحال سے نکلنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، اسی طرح جب مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے مؤقف بدلنا ضروری ہو جاتا ہے، جبکہ اس کی کوئی عقلی دلیل بھی میسر نہیں ہوتی، تو ان لفظوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ ’’قومی مفاد آڑے آ گیا ہے‘‘ اس لیے جو کچھ کر رہے ہیں وہ قومی مفاد میں کر رہے ہیں۔

اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ فوجی عدالتوں کو جمہوریت کے دامن پر داغ قرار دینے والی پیپلزپارٹی اس بار بھی فوجی عدالتوں کی توسیع میں آسانی سے راضی نہ ہونے کا واضح تاثر دے رہی تھی۔

زرداری صاحب اسلام آباد آئے اور پورا ہفتہ ڈیرہ ڈالے رکھا۔ وہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر باقی جماعتوں کو بھی اپنا ہمنوا بنانا چاہتے تھے، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ فوجی عدالتوں کے معاملے پر تو جے یو آئی ایف حکومت سے ناراض نظر آئی ہی لیکن تحریک انصاف کے کوئی خاص تحفظات بھی نظر نہیں آئے۔

پڑھیے: فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کی توسیع پر اتفاق

جس دن پیپلز پارٹی نے پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس سے بائیکاٹ کر کے خود کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا، ان ہی دنوں تحریک انصاف فوجی عدالتوں کے معاملے پر حکومت کے مؤقف سے قریب تھی اور پیپلز پارٹی کی اے پی سی میں جانے سے انکاری بھی۔ ایم کیو ایم نے بھی شرکت سے لاچاری دکھا دی۔

حکمران مسلم لیگ کو پیپلز پارٹی نے خود ہی دعوت نہیں دی۔ اس طرح پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی اور بی این پی مینگل جماعت بھی شریک نہیں ہوئی۔ جب پانچ اہم جماعتیں کثیرالجماعتی کانفرنس سے باہر ہوگئیں تو اس کانفرنس کو کس طرح کامیاب قرار دیا جا سکتا تھا؟

شہر اقتدار میں جب کانفرنس کے حوالے سے ایک پارٹی رہنما سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کچھ یوں بیان کیا کہ ’’لگتا ہے کہ زرداری صاحب اپنی بندوق ہمارے کندھے پر رکھ کر چلانا چاہتے ہیں۔"

عمران خان بھی اس کانفرنس میں شریک ہو کر پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کانفرنس کے دو دن بعد جب آصف زرداری نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے فوجی عدالتوں کی توسیع کے لیے اپنی حمایت کو نو نکات سے مشروط کیا تو اس دن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان سے حکومت نے ابھی تک براہ راست رابطہ بھی نہیں کیا ہے۔

پڑھیے: فوجی عدالتیں: اہم سیاسی جماعتیں تذبذب کاشکار

اپنے اسلام آباد قیام کے دوران زرداری صاحب نے امریکا، چین، سعودی عرب، ایران، جاپان اور اٹلی کے سفیروں اور برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقاتیں کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی کہ ان کے سیاسی معاملات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

زرداری صاحب کے نو نکات پر پیپلزپارٹی کی ٹیکنیکل ٹیم حکومت سے مذاکرات کر رہی تھی کہ اچانک حسین حقانی نے ایک مضمون کی صورت میں پیپلزپارٹی کے سر پر پتھر دے مارا۔

آصف علی زرداری کے سیاسی حربوں سے متاثر کچھ لوگوں کو خیال تھا کہ یہ کام بھی انہوں نے خود ہی کروایا ہوگا۔ تاکہ ایک طرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھایا جاسکے تو دوسری طرف نئی امریکی انتظامیہ کی قربت بھی حاصل کی جاسکے۔ جبکہ دوسروں کا خیال تھا کہ حسین حقانی کے مضمون نے آصف زرداری کے سارے پلان کا تیاپانچہ کر دیا ہے۔ اب پیپلز پارٹی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ فیس سیونگ کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کی فوری حمایت کر دے اور ایسا ہی ہوا۔

حسین حقانی کے مضمون کو جواز بنا کر وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی سے درخواست کی کہ وہ ایک پارلیمانی کمیشن تشکیل دے جو حسین حقانی کی طرف سے اپنے مضمون میں کیے گئے دعوؤں کی تحقیقات کرے اور پارلیمانی کمیشن کے روبرو سابق صدر زرداری، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیر داخلہ کو بھی پیش ہونے کا کہا جائے۔

اپوزیشن حسین حقانی کو غدار قرار دے کر جان نہیں چھڑا سکتی، خواجہ آصف چند روز قبل قومی اسمبلی میں حسین حقانی کے بیان پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے دیئے گئے رد عمل پر بات کر رہے تھے۔ اس دن تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں بھی حکومت کے مؤقف کے ساتھ کھڑی تھیں جبکہ پیپلزپارٹی تنہا تھی۔ اس لیے قائدِ حزب اختلاف نے پارلیمانی کمیشن کی مشروط حمایت کی۔

اس دوران ہی پیپلز پارٹی کی چار رُکنی تیکنیکی کمیٹی، اسپیکر چیمبر میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کے پانچ دور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ اب حکومت سے فوجی عدالتوں کی توسیع کے حوالے سے مذاکرات ممکن نہیں۔ اعتزاز احسن اپنی اس بات پر ڈٹے ہوئے تھے کہ ’’یہ ایک پیکیج ڈیل ہے اور حکومت ہمارے مطالبات ماننے کے لیے تیار نہیں۔‘‘

پڑھیے: فوجی عدالتوں پر پیپلز پارٹی ڈانواں ڈول کیوں؟

چونکہ پیپلزپارٹی کی حمایت کے بغیر فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے لیے آئینی ترمیم ممکن ہی نہیں تھی۔ اس لیے حکومت کے بس میں نہیں تھا کہ وہ پیپلزپارٹی کی وہ شرائط مان لے جو فوجی عدالت بنوانے والوں کے لیے قابلِ قبول نہ ہوں۔ لیکن پھر بھی نو میں سے چار شرائط منوا کر پیپلزپارٹی کو کچھ فیس سیونگ مل ہی گئی۔

جب پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کے لیے پیپلزپارٹی کے رہنما جا رہے تھے تو فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہماری پارٹی جو بھی فیصلہ کرے گی وہ "قومی مفاد" میں کرے گی اور "قومی مفاد" میں فیصلہ ہو گیا۔

اب تک بتائے گئے پلان کے تحت اسی ماہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل منظور ہو جائیں گے۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد یہ 28 ویں ترمیم کہلائے گی جو 21 جنوری 2019 تک لاگو ہو گی۔

6 جنوری 2015 کو جب 21 ویں ترمیم سینیٹ سے پاس ہونے جار رہی تھی تو اس وقت سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی رہنما میاں رضا ربانی تھے۔ شدت، ندامت اور رنج سے ان کی آواز بھر آئی اور وہ صرف اتنا کہہ پائے۔

"میں نے 21 ویں آئینی ترمیم کے حق میں اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دیا۔ سینیٹ کے رُکن کی حیثیت سے پچھلے 12 سال میں کبھی اس قدر شرمندہ نہیں ہوا جتنا آج ہوں۔ میرا ووٹ پارٹی کی امانت تھا اور اس کے کہنے پر دے دیا" اور وہ ایوان سے باہر نکل گئے۔

اس بار میاں رضاربانی سینیٹ کے چیئرمین ہیں۔ اس بار انہیں ووٹ تو نہیں دینا پڑے گا لیکن آئینی ترمیم کی شق وار منظوری ضرور لینے پڑے گی۔ اس بار وہ کیا کرتے ہیں اس کے لیے چند روز انتظار کرنا پڑے گا۔

ارے یاد آیا کہ 7 جنوری 2015 کو صدر ممنون حسین نے بل پر دستخط کیے تو بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 21 ویں ترمیم منظور کر کے پارلیمنٹ نے اپنی ناک کٹوا دی!

اب کی بار کیا کہیں گے؟

تبصرے (0) بند ہیں