فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئینی و قانونی ترامیم کے بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیے گئے ہیں۔ یہ بل الفاظ کی معمولی تبدیلی کے علاوہ وہی ہیں جن کی منظوری دو سال قبل لی گئی تھی۔

فوجی عدالتوں کے حوالے سے حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس کے اجلاس میں بھی غور کیا گیا اور فوجی عدالتوں کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔

چھوٹے موٹے اعتراضات اپنی جگہ لیکن ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں ماسوائے پیپلز پارٹی، ان آئینی و قانونی مسودوں پر متفق ہیں جو مسودے قومی اسمبلی میں پیش کیے جا چکے ہیں۔

فوجی عدالتوں پر اس وقت پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام کھل کر سیاست کر رہی ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی کھل کر مخالفت نہیں کر رہی ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کا مؤقف سادہ اور واضح ہے جو مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی میں بھی رکھا ہے کہ اس قانون میں سے 'مذہب' اور 'فرقے' کے الفاظ حذف کیے جائیں، قانون امتیازی نہیں ہونا چاہیے اور دہشتگردوں کی کوئی درجہ بندی نہیں ہونی چاہیے۔

ایم کیو ایم کا مطالبہ ہے کہ قانون صرف مذہب اور فرقے کے نام پر دہشتگردی کرنے والوں کے خلاف ہونا چاہیے اور عام نوعیت کے دہشتگردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کے بجائے عام عدالتوں میں عام قوانین کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ ایم کیو ایم کے اس مطالبے کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اس مطالبے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے۔

لیکن سب سے مبہم، گومگو اور چوں کہ چنانچہ پر مبنی مؤقف پیپلز پارٹی کا ہے۔ پہلے دن سے بل کے پیش ہونے تک پیپلز پارٹی نہ صاف چھپتی ہے نہ سامنے آتی ہے۔ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے سے لے کر مدت میں توسیع کے معاملات پر مذاکرات اور اجلاسوں میں اپنا مؤقف اور رائے تبدیل کرتی ہوئی نظر آئی ہے۔

پیپلز پارٹی نے اسپیکر قومی اسمبلی کی صدارت میں ہونے والے آخری اجلاس میں اپنی تجاویز رکھیں اور یہ بات سامنے آئی کہ پیپلز پارٹی دو برس کے لیے فوجی عدالتیں قائم کرنے کے لیے راضی ہو چکی ہے، لیکن رات ڈھلے پیپلز پارٹی نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپنی تجاویز سے دستبردار نہیں ہوئی۔

ایسا ہرگز نہیں کہ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کو ناقابل قبول سمجھ کر ایوان کے اندر یا باہر ان کی مخالفت کرے گی، یہ بھی نہیں کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اس بل کی حمایت کرے اور سینیٹ سے فوجی عدالتوں کا بل رد کروا دے گی۔ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی حامی بھی ہے اور مخالف بھی۔

پیپلز پارٹی اپنی شرائط پر فوجی عدالتیں چاہتی ہے۔

فوجی عدالتوں کی ضرورت کی بات صرف حکومت ہی نہیں بلکہ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ بھی کر رہی ہے۔ مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ وہی فوجی عدالتیں ہوں جو دہشتگردی میں ملوث مجرموں کے خلاف پہلے کی طرح ہنگامی بنیادوں پر مقدمات چلائیں تاکہ مجرموں کو منطقی انجام تک پہنچا کر دہشتگردی کے شکار لوگوں کو انصاف مہیا کیا جا سکے۔

دو سال قبل پشاور سانحے کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں کل جماعتی کانفرنس کے موقع پر پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کا وہ بیان آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس کی تعریف وزیرِ داخلہ بھی کر چکے ہیں۔ اس بیان میں آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ "اگر میری جماعت کو نقصان ہوتا ہے تو بھی منظور، لیکن دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے حکومت اور فوج کے ساتھ ہیں۔"

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان دو برسوں میں ایسا کیا ہوا کہ اب پیپلز پارٹی ان فوجی عدالتوں کو توسیع دینے کو تیار نہیں، اور تیار ہے تو اپنی کچھ شرائط کے ساتھ۔

اسپیکر قومی اسمبلی کی صدارت میں جب اجلاس شروع ہوئے تو پیپلز پارٹی قائدین کا مؤقف تھا کہ "ہم فوجی عدالتوں کے مخالف نہیں لیکں حکومت سے چند وضاحتیں چاہتے ہیں۔"

قائدِ حزبِ اختلاف ان اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے، کسی اجلاس میں فوجی عدالت کی کھلی مخالفت نہیں کی اور باہر یہ مؤقف اختیار کیا جاتا رہا کہ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کو دیکھنا نہیں چاہتی البتہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ یہ عدالتیں ہونی چاہیئں۔

پیپلز پارٹی ان ابتدائی دنوں میں ہی کنفیوژن کا شکار تھی اس لیے تو کبھی اسپیکر کے ساتھ اجلاسوں میں آل پارٹیز کانفرنس کی بات ہوا کرتی تھی تو کبھی ان کیمرہ بریفنگ کا مطالبہ ہوا۔ ان اجلاسوں میں بھی جماعت اپنے نمائندے بدلتی رہی۔ قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کے بعد نوید قمر پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ ایک دن تو یہ ذمہ داری رکن اسمبلی اعجاز جکھرانی کے کاندھوں پر آن پڑی۔ اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی ان دنوں بھی کوئی حکمت عملی بنا رہی تھی یا کسی اشارے کی منتظر تھی۔

پارلیمانی کمیٹی نے جب فوجی عدالتوں پر نوے فیصد کام مکمل کرلیا تو پیپلز پارٹی کو اچانک یاد آیا کہ اسپیکر قومی اسیمبلی کو تو غیر جانبدار ہونا چاہیے، وہ کیسے حکومتی امور کے لیے اجلاس بلا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے بیان دیا کہ اسپیکر کی کمیٹی کا پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کر دیا ہے، ہم اپنی آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے۔ یہ بائکاٹ کئی بیٹھکیں ہونے اور کمیٹی کے کسی نتیجے پر پہنچنے پر ہوا۔

پی پی کے بائیکاٹ کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کی صدارت میں 28 فروری کو جو اجلاس ہوا اس میں پیپلز پارٹی کی غیر موجودگی میں تمام جماعتیں فوجی عدالتوں کے حکومتی مسودے پر متفق ہوچکی تھیں۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ نواز، تحریک انصاف، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کے رہنما شریک ہوئے۔

ان ہی دنوں پیپلز پارٹی کی ایک کمیٹی اپنی چار مارچ کی آل پارٹیز کانفرنس کے لیے دعوت نامے تقسیم کر رہی تھی، لیکن جب یہ سیاسی کانفرنس منقعد ہوئی تو دعوت کے باوجود تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم پاکستان، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے رہنما شریک نہیں ہوئے، جبکہ مسلم لیگ نواز کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اس طرح یہ کل جماعتی کانفرنس کثیرالجماعتی کانفرنس بھی نہیں بلکہ قلیل الجماعتی کانفرنس میں تبدیل ہوگئی۔

لیکن وہ قلیل الجماعتی کانفرنس بھی کسی نتیجے پرپہنچے بغیر ہی اختتام پذیر ہوئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کانفرنس سے پہلے حکومت تمام سیاسی جماعتوں سے فوجی عدالتوں پر ہاں کروا چکی تھی، یہ ہاں صرف حکومت سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے بھی تھی۔ اب پیپلز پارٹی کے پاس سیاسی جماعتوں کو اپنے ایجنڈا پر لانے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا تھا۔

اس سیاسی کانفرنس میں پیپلز پارٹی اپنی سیاسی اور نظریاتی مخالف جماعتوں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، پاکستان عوامی تحریک اور عوامی مسلم لیگ کے رہنماؤں سے پرامید نگاہوں سے امید کی آس لگائے ہوئے تھی لیکن وہ آس ادھوری رہی کیوں کہ پیپلز پارٹی کے پاس نہ متبادل پلان تھا نہ پالیسی واضح تھی اور نہ ہی قیادت پر کوئی اعتماد کرنے کے لیے کوئی تیار تھا۔

اس لیے اس سیاسی کانفرنس کا نہ کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا نہ کوئی مشترکہ بیان۔ آصف علی زرداری نے کانفرنس کے آخر میں بلاول بھٹو زرداری کو آّگے کردیا تاکہ وہ اس ناکامی کا اعلان میڈیا کے سامنے کریں۔

قلیل الجماعتی کانفرنس کی ناکامی کے باوجود پیپلز پارٹی نے اکیلے ہی فوجی عدالتوں پر نو نکاتی تجاویز کا فارمولہ پیش کردیا، جس میں فطری انصاف، عالمی قوانین اور شفاف ٹرائل کے تمام اصول تو تھے لیکن فوجی عدالتوں کے قیام کے تناظر میں یہ نکات فنی اعتبار سے ناقابلِ عمل سمجھے جاتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی تجویز کے مطابق اگر سیشن ججوں نے ہی اس طرح کا ٹرائل کرنا ہے تو آئین میں ترمیم کی ضرورت کیا ہے، وہ قانون تو پہلے سے موجود ہیں، اور اگر عام قوانین کے مطابق ملزموں کے خلاف استغاثہ ہونا ہے تو پھر فوجی عدالتوں کی ضرورت ہی کیا ہے، تمام مقدمات انسدادِ دہشتگردی عدالتوں میں بھی چل سکتے ہیں، جن کے لیے سپریم کورٹ پی ایل ڈی ۱۹۹۹ سپریم کورٹ ۵۰۴ شیخ لیاقت حسین بنام وفاق پاکستان مقدمہ میں کہہ دیا ہے کہ خصوصی عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر مقدمے سنیں اور سات دنوں کے اندر مقدمات کا فیصلہ کریں۔ اس طرح اس مقدمے کے فیصلے میں خصوصی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل دائر کرنے اور ان کو نمٹانے کے لیے وقت کا تعین کردیا گیا ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کروانے کی پابند حکومت وقت ہوتی ہے۔ اٹھارہ سال پہلے دیا ہوا فیصلہ آج بھی عملدرآمد کا منتظر ہے۔

پیپلز پارٹی اب بھی اپنا موقف واضح نہیں کر رہی ہے۔ فوجی عدالتوں پر اپنا الگ بل لانے کا مطلب سیاست کے سوائے کیا لیا جائے؟ تحریک انصاف بھی حکومت سے نالاں ہے، اگر دونوں جماعتیں حقیقی مخالفت کی ٹھان لیں تو حکومت لاکھوں کوششوں کے باوجود فوجی عدالتوں کا بل منظور نہیں کروا سکتی۔

مگر اپنی بلائی گئی کانفرنس میں جن جماعتوں کو پیپلز پارٹی ایک مشترکہ بیان پر متفق نہیں کرسکتی تو کیا ان جماعتوں کے اراکین اسیمبلی پیپلز پارٹی کے آئینی و قانونی بل پر ووٹ دے دیں گے؟ہ رگز نہیں۔

پیپلز پارٹی کی اسی پالیسی سے دو مقاصد ہی سمجھ میں آتے ہیں، یا تو پیپلز پارٹی حکومت سے کچھ چاہ رہی ہے یا مقتدر حلقوں اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنی قوت دکھانا چاہتی ہے۔

اگر بات فیور لینے کی ہے تو پھر سب کا خیال ڈاکٹر عاصم کے خلاف درج مقدمات کی طرف جاتا ہے۔ لیکن ایک بات ہے کہ فوجی عدالتوں پر پیپلز پارٹی کے مبہم، ڈولتے، ڈگمگاتے، گھومتے اور لڑکھڑاتے مؤقف کو پیمانہ بنا کر اگر دیکھا جائے تو بھٹوز اور زرداری کی قیادت میں چلنے والی پیپلز پارٹی میں فرق صاف ظاہر ہے والی بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

razak khatti Mar 14, 2017 07:47pm
ابراہیم صاحب آپ خوب سمجھتے ہیں کہ اس بل کی مخالفت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ حکومت براہ راست ابھی تک زرداری صاحب سے بات نہیں کررہی۔۔ وہ بات اس لیئے نہیں کرنا چاہتی کہ جو شرائط سامنے آنی ہیں وہ حکومت پوری نہیں کرسکتی